ہمارے نزدیک صحابہ جیسے افراد تو یہ دھرتی یقینا قیامت تک نہ پیدا کرے گی ممکن ہے ان کے لیے یہ طرز ایصالِ ثواب ایجاد کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ لیکن امت کے لیے ایک عملی نمونہ قائم کرنے کی غرض سے تو یہ عمل کیا ہوتا۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ رشد و ہدایت میں صحابہ کی منور زندگی میں اور خیرالقرون اور اس سے ملنے والے عرصہ میں کہیں بھی اس ختم خوانی کا ثبوت نہیں ملتا بلکہ قرآن میں تو مروجہ ختم خوانی کی تردید ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ ﴿وَلَا تَشْتَرُوْا بِآیَاتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا﴾ بیش قیمت آیات کے بدلے دنیا کا متاع قلیل نہ خرید، یہ دکاندار ذہنیت تو اسلام سے میل نہیں کھاتی کہ ثواب پہنچانے کے ذرائع کھانے دانے اور چند پیسوں کی خاطر فروخت کیے جائیں ۔ آپ کا میت رنج و کلفت اور درد و عذاب ہی میں مبتلا رہے گا جب تک اس کے پیچھے ختم خوانی کی رسم ادا نہیں کی جاتی، اور یہ رسم ادا نہیں ہو سکتی جب تک کہ قاریوں اور ملاؤں کو چند ٹکے اور چرب نوالے اور لذیذ و شیریں فروٹ نہ کھلائے جائیں کتنی بڑی احتیاج ہے ختم خوانوں کی، افسوس ہے ان کی خدمات بھی لِلّٰہ حاصل نہیں ہو سکتیں ۔ باطل طریقوں سے عوام کا مال کھانے کی کتنی بڑی سبیل ہے یہ جسے محض اسی نیت سے ایجاد کیا گیا تھا۔
اجرت کے بغیر قرآن کا ثواب:
البتہ بغیر اجر و معاوضہ اور دنیوی طمع کے قرائن قرآن کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔ اس کے متعلق حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مشہور شاگرد) فرماتے ہیں :
((واما قرأۃ القرآن و اہدائہا لہ تطوعاً بغیر اجرۃ فہذ ایصل الیہ کما یصل ثواب الصوم والحج۔)) [1]
’’اجرت کے بغیر خوش دلی و نیک نیتی سے قرآن پڑھ کر اس کا ثواب میت کو بخشنا درست ہے اور اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔‘‘
جیسا کہ روزہ اور حج کا ثواب اسے پہنچتا ہے۔ لیکن اجر معاوضہ یا کسی اور نفسانی لالچ
|