Maktaba Wahhabi

300 - 366
سفینے پار لگا دیتے ہیں ، ہم آپ جیسے مقرب بندوں کی نذر ادا کرتے رہیں گے، تاکہ آپ راضی ہو کر ہم جیسے روسیاہوں کی عنداللہ سفارش کریں ۔ ہم اللہ کو منہ دکھانے کے قابل بھلا کب ہیں ؟ بہ فرض محال اگر کسی بزرگ نے کوئی ایسی بات فرمائی بھی ہو جو سنت نبوی تعلیم اسلامی اور مزاج دین سے مناسبت نہیں رکھتی۔ تو ایسی باتیں اور ایسے افعال نظر انداز کرنے کے قابل ہیں نہ کہ استناد و عمل کے لائق، دراصل ان قبروں پر بدعات کے موجد تعلیم اسلامی سے ناواقف نیم خواندہ پیر، جیلی فقیر اور ضمیر فروش ملا ہیں ۔ جن کے پاس کوئی علمی فنی اور ذہنی استعداد نہیں ہوتی، بیچنے کے لیے اور کوئی جنس نہیں ملتی تو بزرگوں کا نام بیچ کر روٹی کماتے ہیں ۔ جھوٹی حدیثوں اور من گھڑت افسانوں کے زور پر ان کا کاروبار چلتا ہے۔ اسلاف کی بزرگی و کرامت کے ڈھول اسی لیے تو گلے میں لٹکائے پھرتے ہیں کہ اس بہانے سے نذر و نیاز اور صدقات خیرات بٹورنے میں سہولت رہتی ہے۔ پیروں کی کرامات منوانے اور سنانے کی آڑ میں دراصل اپنے نفس امارہ کی بپھری ہوئی خواہشات کا سامان تکمیل حاصل کرنا ہوتا ہے۔ نسلی غرور: اس قسم کے ناخلفوں کے ریشہ ریشہ میں نسی غرور اور قومی تکبر رچا ہوتا ہے، اور سوائے اس غرور کے ان کا کاسۂ حیات میں اور کوئی خوبی تو ہوتی نہیں ۔ علم و اخلاق سیرت و کردار یا کسی اور دنیوی خوبی کے لحاظ سے تو بالکل یتیم ہوتے ہیں ۔ ذاتی اور مادی غرور سب سے پہلے ابلیس نے کیا تھا۔ اس نے آدم کے مقابلہ میں کہہ دیا تھا: ﴿خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ﴾ میری پیدائش شعلہ آتش سے ہے لیکن آدم کھنکتی مٹی اور متعفن کیچر سے پیدا کیے گئے ہیں مٹی پر آتش کو ترجیح ہے۔ اس لیے میں اس کے آگے سجدہ نہیں کرتا۔ اس کے بعد یہ نسلی برتری کا نعرہ یہو دو نصاریٰ میں بھی سنا گیا: ﴿وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ وَ النَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ (المائدۃ: ۱۸)
Flag Counter