ایسے ہی قرآن کریم بھی ہے جو فصیح عربی زبان میں اترا ہے اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اس کو اس کی اصلی زبان سے بدل دے تو اس کی بلاغت ختم ہو جائے گی اور اس کی ہیبت جاتی رہے گی اور اس کے احکام اور حکمت بدل جائیں گے، اور وہ قرآن ہونے کی صفت سے ہٹ جائے گا۔ اس لیے کہ اس کا ترجمہ کسی بھی اجنبی زبان میں ہوا اس کے اندر خرابی اور شک واقع ہو جائے گا اور کسی شخص کے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ ترجمہ میں قرآن جیسی بلاغت پیش کر سکے۔ علماء کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن کے ترجمہ کو قرآن نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ معانی قرآن سے پوری طرح دُور ہے۔ بس یہی حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی تصویر کا بھی ہے کہ وہ آپ کی صفت اور جلال اور حسن خلقت سے دور کرتی ہے۔
۳۔انبیائے کرام علیہم السلام کی مقدس زندگی کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال
نہیں کیا جا سکتا:
رہا اس فلم بنانے والے کا یہ دعویٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کو آواز اور صورت میں ظاہر نہیں کیا جائے گا تو یہ محض ان کی بکواس ہے۔ کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اس پر ہمیشہ قائم رہیں اور دوسرے فلم ساز بھی ان کے محض پابند رہیں جب فلم سازی کا دروازہ کھلا ہوا ہو اور وسیع گنجائش موجود ہو تو ایسا ممکن ہی نہیں ۔
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو بھی ممنوع کام شروع ہوتا ہے وہ اسی طرح ہوتا ہے کہ لوگوں کے نفوس اس سے منقبض ہوتے ہیں اور دل میں ان کو برا سمجھتے ہیں ۔ لیکن یہ لوگ شروع میں اس طرح نرمی سے کام لیتے ہیں جس سے لوگ اس کو قبول کر لیں ، اور اس سے نفرت نہ کریں ۔ حق کو مختلف قسم کی تلبیس اور تدلیس کے ساتھ پیش کرتے ہیں پھر دھیرے دھیرے بدسے بدتر کی طرف لوگ چلتے ہیں یہاں کہ وہ انتہائی برے انجام تک پہنچتے ہیں اور سب چیز کا خلاصہ اس کا خاتمہ ہوتا ہے۔ رہا لوگوں کا یہ کہنا کہ بعض علماء کی طرف سے اس فلم کے جواز کا فتویٰ جاری ہوا ہے، تو معلوم ہونا چاہیے کہ اس قسم کے فتوؤں کا جاری ہونا کچھ بعید نہیں اور کوئی ضروری بھی نہیں کہ ہر فتویٰ مان ہی لیا جائے اور اس پر عمل بھی کیا جائے اور نہ ہر وہ شخص جو بغل میں کتاب دبائے حکیم بن جاتا ہے اور کتنی باتیں تو ایسی ہیں جو اپنے بولنے والے کو وہ خود کہتی ہیں کہ مجھے معاف کرو۔
|