تجہیز و تکفین کے لیے کوئی اور اہتمام کیا جاتا ہے، جب تک کہ خیرات پکانے کے لیے چاول سامنے نہ آ جائیں ۔ یا اس سے پہلے پکا کر نہ کھلائے جائیں ۔ ورثا کتنے ہی غریب ہوں مقروض ہوں خستہ حال اور یتیم ہوں ، لیکن مزید قرض کا بوجھ اٹھا کر بھی انہیں یہ رسم پوری کرنی پڑتی ہے حالانکہ اسلام کی تعلیم یہ نہ تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تو یہ ہے کہ ایسے مصیبت زدہ کے گھر کھانا بھجوایا جائے، نہ کہ اس سے کھایا جائے، لیکن سنت کے خلاف جاہل ملا نے اول روز سے جو قدم اٹھایا تھا۔ تو کیسے کیسے مفاسد و منکرات پر آ کر رکا ہے۔ پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اپنی زندگی میں جو صدقہ خیرات دیا جائے گا۔ وہ افضل ہے اس خیرات سے جو مرنے کے بعد پکائی جاتی ہے نہ معلوم کتنے نا بالغ وارثوں کے حقوق تلف کر کے خیراتیں پکائی جاتی ہیں ۔ بہرحال مروجہ خیرات، بدعت میں ضرور اضافہ ہے۔ لیکن یہ فعل بھی پاکیزہ اور مستند زندگیوں کے خدوخال میں کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ ایجاد بھی ثواب کے بہانے ملا کی ہوس ھل من مزید کا نتیجہ ہے، اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
بے عمل کے رخنے:
غورکیجئے جب انسان ان حیلوں اور مغفرت و نجات کے خود ساختہ و پر فریب طریقوں میں پھنس جائے تو یقینا بے عملی کو داخلے کی راہ ملتی ہے۔ شیطان غلط فہمی و خود فریبی کے سینگوں پر جب اٹھا لیتا ہے تو یقین ہو جاتا ہے کہ میت خواہ زندگی بھر قرآن کو پڑھے یا نہ پڑھے اسلامی عقائد و اخلاق سے اسے کوئی واقفیت ہو یا نہ ہو۔ فسق و فجور اس کا اوڑھنا بچھونا رہے ہوں اللہ کی راہ میں زندگی میں ایک پیسہ تک خرچ نہ کیا ہو۔ یتیموں مسکینوں بیواؤں مظلوموں اور ناداروں کو زندگی میں اپنے آستانے سے ہزار بار دھکے دیے ہوں ۔ زکوٰۃ کو ہمیشہ تاوان سمجھا ہو، حج ادا کرنے کی سعادت سے بھی محروم ہی رہا ہو، لادینی تہذیب و اخلاق نے اس کا حیلہ بگاڑ دیا ہو اس کے بعد اسلام بحیثیت نظام زندگی اس کی اقلیم حیات میں داخل ہی نہ ہوا ہو لیکن مرنے کے بعد کفن پر لا الٰہ الا اللہ یا عہد نامہ یا بسم اللہ لکھ دیں گے۔ اس کے بعد جب قرآن پھیرا جائے گا اسقاط بانٹی جائے گی خیرات و صدقات کے دہانے کھولے جائیں گے،
|