Maktaba Wahhabi

346 - 366
﴿وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ﴾ (العلق: ۱۹) ’’سجدے کیے جائیے اور قرب حاصل کیجئے۔‘‘ تمام صحابہ نے آپ کے اسی نقش عمل پر ساری زندگی گزار دی، یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تقرب الٰہی کا کوئی اور وسیلہ بجز عبادت کے نہیں بتایا گیا۔ عبادت سے انکار کر کے تمام انبیاء و اولیاء کے وسائل پکڑ لیے جائیں تو بھی بارگاہ الٰہی سے چھٹکارا نہیں ہے۔ ﴿وَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَکْبَرُوْا عَنْہَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَo﴾ (الاعراف: ۳۶) ’’اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور انھیں ماننے سے تکبر کیا، وہی آگ والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔‘‘ وسیلہ کے متعلق امام اعظم کا فتویٰ: آپ فرماتے ہیں کہ اللہ سے کسی کا وسیلہ لینا جائز نہیں ۔ اسے اس کے نام و صفات سے پکارو بلکہ یہ بھی درست نہیں کہ الٰہی بحق فلاں نبی فلاں فرشتہ میری حاجت روائی کر۔ (در مختار) گمراہ اور جاہل لوگوں نے تویہاں تک کہہ دیا ہے کہ فلاں پیر کو وسیلہ پکڑ لو پھر کسی عبادت نماز روزہ اور دیگر فرائض و واجبات کی ادائیگی کی ضرورت نہیں رہتی۔ تھوڑے بہت عمل کے ساتھ پیر کی امداد بیڑا پار کر دیتی ہے حالانکہ کسی نبی اور کسی بزرگ سے اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی ساقط نہیں ہوئے عملی کشتی کے بغیر کسی کو ساحل آشنا بنانے کا ذمہ نہیں لیا گیا، پھر اور کون ہے جو اس کے اوامر بجا لائے بغیر اس کے تقرب کا تصور بھی کر سکے۔ زہد بر دوش پیر کا نصب العین: اگر کوئی شخص عوام کو اللہ کی راہ دکھائے، اور اپنی سیرت و کردار اور تعلیم و تبلیغ سے بھی اللہ و رسول کی اتباع و محبت کا ثبوت پیش کرے تو اسے کوئی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ آیت وسیلہ سے اپنی اہمیت جتا کر اپنے جبہ و دستار کی قیمت چڑھائے اور یہ اعلان کرے کہ میری خدمت و احترام اور میری نذرو نیاز ادا کیے بغیر اعمال اوپر چڑھتے ہی نہیں اور کسی کی رسائی میرے بغیر
Flag Counter