اس نے تمام انسانوں کو مساوات و یکسانیت کے تخت پر بٹھایا ہے۔
رنگ و خون ملک و نسل اور لسانی اختلاف کو ختم کیا، دین اس ذات کا قانون ہے جس کے ہاں تمام انسان خواہ وہ کسی قوم و نسل اور کسی رنگ اور کسی زبان کے مالک ہوں ، ایک ہی انسانی درجہ میں داخل ہیں ان اختلافات کو ابھارنا عصبیت جاہلیہ ہے۔ جسے ختم کرنے کے لیے اسلام نے اپنی دعوت کا آغاز کیا، اب یہ بات کسی طرح درست نہیں کہ کسی خاص قوم مخصوص رنگ اور مخصوص ملک کے لوگ شرافت و عظمت کے واحد مالک یا اللہ کے ہاں مقبول و مغفور ہیں ، ارشاد الٰہی ہے:
﴿اِِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا﴾ (الحجرات: ۱۳)
’’ہم نے تمہیں مرد عورت کے جوڑے سے پیدا کیا ہے اور پھر مختلف قبیلوں اور شاخوں میں پھیلا دیا، اور معاشرتی معاملات میں آسانی ہو۔‘‘
اور تعارف و شناخت میں کوئی پیچیدگی پیدا نہ ہونے پائے قوموں اور قبیلوں کے وجود تقسیم کا سارا فلسفہ ’’لتعارفوا‘‘ میں سمیٹ دیا گیا ہے، گویا اس سے زائدان کا کوئی مقصود ہی نہیں ، اور نہ انہیں فلاح و نجات دلانے میں کوئی اثر و خاصیت حاصل ہے۔
معیار فضیلت:
اللہ کے نزدیک افضل و اکرم وہی ہے جو اتقیٰ ہو گا، مذکور قبائل و شعوب کی تقسیم و ایجاد تو محض تمہارے باہمی تعارف کے لیے ہے نہ کہ فخر کرنے کے لیے، ہمارے ہاں ان چیزوں کی کوئی وقعت نہیں ۔ ہمارے ہاں صرف وہی شخص مکرم اور معزز ہے جو متقی صالح اور اسلام کا سچا پیرو ہے، وجہ امتیاز تعلق باللہ میں شدت اور سبقت ایمان و اخلاق میں پختگی و بلندی اور قرب الٰہی کے لیے زیادہ سے زیادہ جذب وسعی، اور محض عمل صالح ہے، ورنہ غور تو کیجئے کیا تمام انسان آدم کی اولاد نہیں ہیں ، پھر پیغمبروں ، ولیوں ، نیکو کاروں ، اور بڑے بڑے بزرگوں کی وجہ فضیلت کیا کسی قوم سے تعلق و مناسبت کی بنا پر ہے، صحابہ کرام، ائمہ عظام، مجددین امت
|