اور صلحائے امت میں سے کوئی بھی کسی قومی علو کی معراج سے شرف و فضیلت کے آسمانوں تک پہنچا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو بڑھ کر قرآن اور عمل صالح ہے نہ کہ نسبی کبرو غرور۔
کنعان بن نوح کا واقعہ:
کنعان (یام) نسبی طور پر یا خونی رشتہ کے لحاظ سے تو نوح علیہ السلام کا بیٹا تھا۔ لیکن طوفان نے اسے نگل لیا، اور قہر الٰہی نے اسے دبوچ لیا تو نوح علیہ السلام محبت پدری کی بناء بے اختیار پکار اٹھے:
﴿اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ﴾ (ہود: ۴۵)
’’میرے رب! میرا بیٹا میرے ہی گھر والوں میں ہے اور تیرا وعدہ بے شک سچا ہے۔‘‘
معلوم ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا کیا جواب دیا، فرمایا:
﴿یَانُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَہْلِکَ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْئَلْنِ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنِّیْٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ﴾ (ہود: ۴۶)
’’اے نوح وہ تیرے گھر والوں سے نہیں کہ اس کے اعمال اچھے نہ تھے۔ پھر جو بات تجھے معلوم نہیں اسے کیوں مانگتے ہو، آئندہ کے لیے تنبیہ کی جاتی ہے تاکہ آپ نادانوں میں سے نہ ہو جائیں ۔‘‘
بیٹے کو آل پیغمبر ہونے سے جس چیز نے خارج کرا دیا وہ اس کے غیر صالح اعمال تھے، اور بقیہ تین بیٹے چونکہ عمل صالح کے مالک تھے وہ ہلاکت سے بچا لیے گئے جن سے آئندہ نسل انسانی بڑھی، اور اس کے علاوہ جو لوگ نوح علیہ السلام پر ایمان لائے تھے وہ نوح علیہ السلام کے ساتھ ہی ہلاکت سے بچا لیے گئے۔ اگرچہ نسبی لحاظ سے ان کا پیغمبر سے کوئی رشتہ نہ تھا۔ خونی رشتے کے نہ ہونے کے باوجود پیغمبر کی آل ہونے کا شرف نہیں جس چیز نے دلایا وہ ایمان اور عمل کے سوا اور کچھ نہیں ۔ چنانچہ مذکور ہے:
﴿وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰی مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَنَجَّیْنٰہُ وَ اَہْلَہٗ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِo وَ نَصَرْنٰہُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا﴾ (الانبیاء: ۷۶۔ ۷۷)
|