نہ ہوگا، ان سے بڑھ کر اور کون ہے جو اپنے لیے شرف و عزت کا معیار تقویٰ و نیکی نہیں بلکہ حسب و نسب تصور کرتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات چونکہ تقویٰ و تقدس میں بلند مرتبہ پر تھیں ، اس لیے کوئی عورت ان کے رتبہ و شان کو نہیں پہنچ سکتی، یہاں وجہ امتیاز اور اساس فضیلت صرف تقویٰ ہے کوئی نسب نہیں ۔ پھر سارا قرآن پڑھ جائیے اور تمام احادیث کا ذخیرہ چھان ماریے۔ عمل صالح کے بغیر کسی پیغمبر کی ابوبیت ابنیت اور زوجیت اور ان سے کوئی نسلی تعلق کہیں بھی معیار نجات و فلاح قرار نہیں دیا گیا۔ آپ کو سارے قرآن میں نجات و سعادت فلاح و عروج راحت و اطمینان بے خوفی و شادمانی جنت کی بشارتیں اور عزت و فضیلت کی تمام وسعتیں صرف ایمان اور عمل صالح کے لیے چشم براہ نظر آئیں گی۔ قرآن نے تو یہاں تک فیصلہ کر دیا کہ ہر وہ شخص خسارے اور گھاٹے میں ہے جس کے اندر یہ چار اوصاف نہیں ہوں گے، عروج و ارتقاء اور دائمی عزت کی زندگی لازوال عیش و آرام کی زندگی اور حقیقی برتری ان اوصاف سے مخصوص کر دی گئی ہے۔
﴿وَالْعَصْرِo اِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍo اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِo﴾ (العصر: ۱۔۳)
(۱) ایمان، (۲) عمل صالح، (۳) تبلیغ حق (۴) تلقین صبر، بس اس کے بعد اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے کامیاب و سعادت مند زندگی کے لیے، معیار شرف و فضیلت اور کلید فلاح و نجات ایمان و اسلام میں پختگی و کمال ہے۔ اس حدیث کی طرف رجوع کیجئے۔ یہاں بھی قرآن کی یہی روح بولتی سنائی دے گی۔
((الحسب المال والکرم التقویٰ۔)) [1]
’’عزت و فضیلت صرف تقویٰ سے مخصوص ہے اور بس۔‘‘
قیامت کے روز حسب و نسب کام نہیں آئیں گے:
شعوب وقبائل اور احساب وانساب موجب نجات نہیں ہیں ؛ اسی لیے قرآن نے اعلان
|