اسود از توحید احمر مے شود
توحید ہی تمام انسانوں سے رنگ و نسل کے امتیازات ختم کر کے پوری نوع آدم کو ایک ہی نصب العین سے وابستہ کرتی ہے، اور ان میں ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ﴾ کی حیات افروز روح پیدا کرتی ہے، احمر اسود، عربی و عجمی کی صدا تو عقیدہ توحید کے پیدا کردہ ساز فکر میں سخت انتشار و مار تعاش پیدا کرتی ہے۔ نسلی برتری کی اٹھائی ہوئی دیواریں امت مسلمہ کے زوال و شکست میں خاطر خواہ اثر و دخل رکھتی ہیں ۔ علامہ اقبال نے پیام مشرق میں کیا خوب کہا ہے:
تو اے کو دک منش خود را ادب کن
مسلمان زادۂ ترک نسب کن
برنگ احمر و خون و رگ و پوست
عرب ناز و اگر ترک عرب کن
نے افغانیم ونے ترک و تتاریم
چمن زادیم و ازیک شاخساریم
تمیز رنگ و بو برما حرام است
کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم
فخر فی الانساب:
ایک اور حدیث بھی قابل غور ہے، ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَرْبَعٌ فِیْ اُمَّتِیْ مِنْ اَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ لَا یَتَّکُوْنَہُنَّ الْفَخْرَ فِی الْاِحْسَابِ وَ فِی الْاَنْسَابِ وَالْاِسْتِقَائِ بِالنُّجُوْمِ وَالنِّیَاحَۃِ۔ الخ))
’’آپ نے فرمایا: میری امت میں چار جاہلیت کی باتیں ہیں جنہیں وہ نہیں چھوڑے ہوں گے، حسب و مال پر فخر، نسب میں طعن، ستاروں کے ذریعہ بارش مانگنا، اور مردوں پر نوحہ کرنا۔‘‘
|