ہمراہ نہیں لے گیا، اسے تمہارے چند منٹ میں مرجھا جانے والے پھولوں کے تختے کے لطف و راحت پہنچا سکتے ہیں اس طرح میت کو ثواب و راحت پہنچانے کا طریقہ بھی بدعت میں داخل ہے، ستم ہے کہ مسلمان ممالک کے سفیر مسلم ممالک میں ان کے مشاہیر اور لیڈروں کی قبروں پر جا کر پھولوں کی چادریں چڑھاتے ہیں ، اس تبادلے میں کہ غیر ممالک کے غیر مسلم لیڈر ہمارے ہاں کے لیڈروں کی قبور پر پھول چڑھاتے ہیں ۔ خیر سگالی و مروت کا یہ طریقہ بھی نا درست ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور پرو انگان شمع نبوت کی زندگیاں بلاشبہ آسمان ہدایت کی جگمگاتی قندیلیں ہیں ، کوئی طالب ہدایت ان کی زندگیوں سے بے نیاز ہو کر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے خصوصی شاگرد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس تعلیم و عمل کا نمونہ قائم کیا تھا۔ وہ ان پاکباز اور فدا کاران با اخلاص نے اپنی زندگیوں میں اچھی طرح جذب کر لیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ مقدس ہستیاں ہمارے لیے محبت و برہان کی مضبوط چٹان ہیں ، ہمارے لیے ان کا طریق عمل مستند ہے، کیا کسی صحابی کے قول و فعل سے مذکور امور سے کوئی ثابت ہے، اگر نہیں تو شریعت کسی ایرے غیرے کے افکار و اعمال کے مجموعہ کا نام نہیں ہے جس کے آگے سر اطاعت خم کیا جائے۔
قبروں پر میلے اور عرس:
عرس اور میلوں کی بدعت نے عوام کی زر و جیب کے ساتھ ساتھ ان کے دولت ایمان پر بھی ڈاکا ڈال کر ہی چھوڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے دعا فرمائی تھی:
((قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم اِنَّہُمْ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثَنًا یُعْبَدْ۔)) [1]
’’یا اللہ میری قبر کو عید نہ بنانا۔‘‘
عید کا معنی ہے بار بار لوٹ کر آنا، کسی معین جگہ پر معین اوقات میں بار بار لوگوں کا اکٹھا ہونا عید کہلاتا ہے قبر کو عید نہ بنانے کا مطلب یہی ہے کہ لوگ قبر پربار بار التزام و اہتمام کے
|