جنازہ کے بعد دعا:
میت کے لیے دعا مغفرت کوئی منکر امر نہیں ہے لیکن نماز جنازہ کے فوراً بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ، لہٰذا بدعت ہے۔ جنازہ ایک مسنون اور منصوص دعا ہے، اس کے بعد معاً مزید کسی دعا کی ضرورت نہیں رہتی۔ تمام معتمد اور محقق علمائے احناف نے جنازہ کے بعد دعا کو مکروہ لکھا ہے، ملا علی قاری نے تو یہاں تک لکھ دیا:
((ولا یدعوا للمیت بعد صلوۃ الجنازہ لانہ یشبہ الزیادۃ فی صلوۃ الجنازہ۔)) [1]
’’نماز جنازہ کے بعد میت کے لیے دعا نہ کرو، کیونکہ یہ نماز جنازہ میں زیادتی کے مشابہ ہے۔‘‘
علامہ ابن نجیم ’’بحر الرائق کتاب الجنائز‘‘ کے آخر میں ، ص: ۲۱۰، ج: ۲ میں لکھتے ہیں :
((ویکرہ عند القبر مالم یثبت من السنۃ والمعہود منہا لیس الا زیارتہا، والدعاء عندہا قائماً کما کان یفعل صلي اللّٰه عليه وسلم فی الخروج الی البقیع۔))
’’یعنی قبر کے نزدیک کوئی ایسا کام کرنا جو سنت سے ثابت نہیں ہے مکروہ ہے اور سنت سے صرف اس قدر ثابت ہے کہ قبر کی زیارت کی جائے، اور میت کے لیے کھڑے کھڑے دعا کی جائے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں جاتے ہوئے کرتے تھے۔‘‘
قرآن کا دوران:
بدعت گزیدہ اور ابو الہوس ملاؤں نے ہر حیلہ میں نصب العین کو پیش نظر رکھا ہے کہ عوام کو نجات و ثواب دلانے کے بہانے ہمارے دنیوی مفاد کی عمر کس قدر دراز ہوتی ہے اور اس
|