وہاں بالجہر پڑھنا موجب ثواب ہے اور جہاں دل میں پڑھنا ثابت ہے وہاں ویسا ہی ہونا چاہیے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک جماعت کو مسجد میں لا الٰہ الا اللہ اور درود شریف اونچا پڑھنے کی وجہ سے مسجد سے نکلوا دیا تھا اور فرمایا: میں تمہیں بدعتی سمجھتا ہوں ۔ [1]
غور کیجئے! لا الٰہ الااللہ، یا درود شریف، عبادت میں داخل ہیں ۔ لیکن جس انداز میں اور جس مقام پر ان کا پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں وہ بھی بدعت ہو جاتے ہیں ۔ قرآن میں اسی بات پر متنبہ کیا گیا ہے: ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ﴾ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر متقی بننے کی سعی نہ کرو، اللہ کے حکم سے زائد پابندیاں اپنے اوپر عائد نہ کر لو، کیونکہ ایسا کرنا گمراہی اور موجب تباہی ہے۔ اس تذکرہ سے مقصد یہ ہے کہ ذکر اللہ بذات خود بڑی اہم عبادت ہے، لیکن جنازے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھا، آپ کے صحابہ نے نہیں پڑھا اور اگر یہ کام میت کے لیے کچھ بھی سود مند ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسے مواقع کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بھی بلند آواز سے ذکر کرنا بدعت شمار کیا ہے۔ [2]
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ بحوالہ طبرانی فرماتے ہیں :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تین موقعوں پر خاموشی کو پسند کرتا ہے، قرآن کی تلاوت کے وقت میدان جنگ میں اور جنازہ کے ساتھ۔‘‘ عالمگیری میں ہے، جنازہ کے ساتھ جانے والوں پر لازم ہے کہ وہ خاموش رہیں ۔ ان کے لیے بلند آواز سے ذکر کرنا اور قرآن پڑھنا مکروہ ہے، تمام صحابہ کرام اور احناف اسے مکروہ ہی سمجھتے ہیں اور بدعت سمجھ کر اس سے منع کرتے ہیں ۔ البتہ فتاویٰ قاضی خان میں اس امر کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی جنازہ کے ساتھ ذکر کی خواہش رکھتا ہو تو جی میں پڑھے، بلند آواز سے مکروہ ہے۔‘‘ [3]
|