مشرکین کے حق میں شفاعت کی اجازت نہیں :
ان کے لیے سفارش کی ممانعت قرآن میں آ چکی ہے:
﴿مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ﴾ (التوبۃ: ۱۱۳)
جب یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ فلاں بھی صریح مشرک ہے تو اس کی بخشش کے لیے دعا مانگنا نبی اور مومنین کے لیے جائز نہیں ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں نے اپنی والدہ کے لیے اللہ سے بخشش کی اجازت چاہی تو اجازت ملی۔ البتہ ان کی قبر کی زیارت کی اجازت مل گئی۔ تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو کہ اس سے موت یاد تازہ ہوتی ہے۔‘‘ [1]
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اللہ کی مخلوق ہیں اللہ کے اور کسی کا درجہ ہے؟ آپ بھی اپنے مالک کے حکم کے خلاف سزا و جزا کے معاملات میں کوئی اختیار نہیں رکھتے۔
ابراہیم علیہ السلام کو اپنے والد کی بخشش طلب کرنے سے منع کر دیا گیا، ایک حبیب اللہ کے منصب پر فائز، دوسرا خلیل اللہ کے شرف سے مشرف، دونوں کو اپنے عزیز ترین رشتہ داروں کے لیے بخشش کی درخواست کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس سے بڑھ کر اور کون سا رشتہ ہو سکتا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ انہیں اجازت دے گا۔ (جبکہ وہ مشرک ہوں ) پھر آپ سے بڑھ کر اور کون سی ہستی ہے جو آگے بڑھ کر کسی کی بخشش کے لیے زبان کھول سکے، جبکہ اسے خود اپنی بخشش کا قطعی پروانہ بھی حاصل نہیں ہے، اور کسی کو کب اس نے کوئی اختیار بخشا ہے جس کی بناء پر دنیا میں وہ لوگوں سے رقم بٹور سکے۔
مخلوق اس کے سامنے اس کی دی ہوئی عزت و رفعت کے باوجود سر تا سر عاجز و بس ہے، اس کی مرضی میں مداخلت کا کوئی مجاز نہیں ۔ مشرکین کے حق آقا کا فیصلہ ہو چکا۔
|