Maktaba Wahhabi

321 - 366
طرح ذاتی اغراض کی گٹھڑی مذہبی غلاف میں لپیٹ کر عوام کے سر پر رکھ دی جاتی ہے۔ جب تک حیل کی گٹھڑی ملفوف ہے ملا کے گھر حلوے اور کھیر پہنچتے رہیں گے۔ چنانچہ ہمارے ملک میں یہ رواج ہے کہ جنازہ سے فارغ ہونے کے بعد چند حضرات ایک حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ جس میں عموماً ملکہ بند قسم کے ملا اور خیرات خور سادات ہوتے ہیں ایک گٹھڑی بنائی جاتی ہے جس میں ایک عدد قرآن شریف قدرے گڑ اور کچھ ریز گاری بندھی ہوتی ہے۔ پھر یہ گٹھڑی مخصوص کلمات دہراتے ہوئے اس دائرہ کا ایک ایک فرد دوسرے کو ہبہ کرتا جاتا ہے۔ بالآخر قرآن (جو ابھی ابھی ہبہ کیا جا رہا تھا) تو مسجد میں پہنچ جاتا ہے گڑ اور ریز گاری ملاؤں میں بٹ جاتی ہے۔ اسقاط: اس طرح ریز گاری وغیرہ اسقاط کے نام سے حلقہ میں بیٹھنے والوں اور بعض دوسرے لوگوں میں تقسیم کی جاتی ہے، قرآن پھیرنا اور اسقاط کے چند ٹکے تقسیم کرنا گویا فدیہ ہے۔ میت کے فرائض و واجبات اور نوافل و مستحبات کی عدم ادائیگی یا کوتاہی و غفلت کا فقہاء نے یہ حیلہ جن مقاصد کے تحت اور ہیئت اور جس مقدار میں ایجاد کیا تھا۔ بات اب اس بھی آگے بڑھ چکی ہے، اور وہ بھی سر پیٹ رہے ہیں کہ مسلمانو! یہ جو کچھ تم کر رہے ہو۔ ہم تو یہ نہیں کہا تھا اور نہ ہمارا یہ مقصد تھا کہ تم نے عبادات کی بساط لپیٹ کر رکھ دی اور دوران یا اسقاط کے ہوائی قلعوں پر مطمئن ہو کر رہ گئے۔ ذرا پوچھئے امام قاضی خان مولانا رشید احمد گنگوہی سے، وہ سب اس زیادتی و بدعت پر سیخ پا ہو رہے ہیں ، چند ٹکوں کی خاطر شکم پرست ملاؤں نے کیا کیا حیلے ایجاد نہیں کر لیے، کہنا یہ ہے کہ یہ اسقاط و دوران قرآن وغیرہ خواہ کتنا ہی نیکی نیتی اور میت کی نجاح و بہبودی کے پیش نظر ایجاد ہوا ہو، لیکن شرع اسلامی اس میں کوئی بھلائی نہیں پاتی۔ ایسے مہمل اور من گھڑت طریق ثواب سنت نبوی کے باغ میں ہیں نظر نہیں آتے، مسلمان کے لیے ذریعہ نجات اور معیار رد و قبول قرآن کی تعلیم اور آفتاب نبوت کی سیرت و عمل ہے۔ جس کی سند وہاں سے
Flag Counter