کے دامن میں اس کے نتائج ڈالے گا، اور مکافات عمل کے نتائج اثر نمائی میں قطعاً کسی کی رعایت نہیں کرتے۔
﴿وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیلًا﴾ (الفتح: ۲۳)
’’اور تو اللہ کے طریقے میں ہر گز کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔‘‘
بے عملی کے سفینے اور پیروں کا سہارا:
یہ تصور جو عام کیا گیا ہے کہ کوئی شخص خواہ کیسے ہی اعمال کی کشتی پر سوار ہو لیکن کسی پیر کامل یا خدا رسیدہ فقیر کا دست وسیلہ پکڑ لینے سے یک دم بیڑا پار ہو سکتا ہے۔ جبکہ ماہ بہ ماہ سال بہ سال نذرانہ باقاعدگی سے ادا کیا جاتا رہے تو یہ سراسر باطل ہے جاہل اور دین نا آشنا لوگوں نے اسی قسم کے کدالوں سے اسلام کے قصر فلک بوس کی بنیادیں کھودنے کا کام لیا ہے، اور قوم ان کے فتنہ سے جس قدر جلدی آگاہ ہو سکے اس میں اس کی بھلائی ہے، ورنہ عمل نا آشنا لوگ خود تو ڈوبیں گے ہی لیکن مریدوں کو بھی لے کر ڈوبیں گے۔
ایک روشن حقیقت:
اگر اسلام کی پابندی خدائی احکام کی اطاعت اور اس کی عبادت میں کسی کو چھوٹ ہو سکتی تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوتی آپ کی بیویوں اور بیٹیوں کو ہوتی۔ پھر آپ کے دامادوں اور ان کے آپ کے قریبی رشتہ داروں کو ہوتی، آپ کے جان نثار صحابہ کو ہوتی، غور کیجئے! اس رعایت و رخصت کا رائی برابر بھی سوراخ چھوڑ دیا جاتا تو بے عملی کا عفریت داخل ہو کر اسلام اور عمل کو پوری عمارت ہی گرا دیتا۔ شرک و ضلالت کے یاجوج ماجوج آپ کی اٹھائی ہوئی مضبوط دیوار کو توڑ کر عمل و اخلاص کی پوری بستیاں ہی چٹ کر جاتے، لیکن اپ نے اپنے دست مبارک سے ایسی عظیم الشان اور کوہ پیکر دیواریں اٹھائیں کہ زریت ابلیس اپنی رخنہ اندازیوں سے امت کی زندگی تباہ و برباد نہ کر سکے، انسان کے گلے میں ایک خاص مقصد حیات (دینی عبادت) کا جو قلادہ ڈالا گیا ہے اس سے کسی فرد بشر کو آزاد نہیں رکھا گیا، اور اس سے آزاد ہونے کے لیے کسی نے اگر نسبی تعلق کے کمزور رشتہ کا سہارا لیا ہے تو اپنے عمل کے
|