طبعی تقاضے سے بچ نہیں سکا۔ اگر کسی پیغمبر (مثلاً نوح علیہ السلام ) نے بھول کر جوش پدری میں نسبی تعلق کا واسطہ دے کر معافی چاہی تو ان کی اولاد کو اس لحاظ سے پاداش عمل اور عذاب سے رہائی نہ مل سکی۔ اس بنا پر کہ یہ فلاں نبی کا بیٹا ہے۔ جس کی خدمت ہزار سال کے قریب سے بلکہ ایسا سوال کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا، پیغمبر کا سکھایا ہوا طریق زندگی قبول نہ کرنے پر حقیقی بیٹا ہونے کے باوجود اسے اہل سے خارج قرار دے کر مستوجب سردار صاہب سمجھا گیا اور عمل صالح نہ ہونے کے بعد نسبی تعلق کوئی کام دے سکا۔
حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کو پیغمبر کی ازدواجی نسبت اس کی بے عملی و کفر کی سزا سے نہ بچا سکی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کو کچھ فائدہ نہ پہنچا سکے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے صاف کہہ دیا:
﴿وَمَا اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ﴾ (الممتحنہ: ۴)
’’میں آپ کے بارے میں اللہ کے ہاں کوئی اختیار نہیں رکھتا۔‘‘
اللہ کا مقرب اور خلیل اتنا عظیم اور بلند منصب پا لینے کے باوجود خدائی نظام میں کسی دخل اندازی کا مجاز نہیں ۔ افضل الانبیاء کی زبان سے یہ کہلوایا گیا:
﴿قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ﴾ (الاعراف: ۱۸۸)
’’کہہ دے میں اپنے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں ہوں مگر جو اللہ چاہے۔‘‘
یہ اعلان اس لیے کرایا گیا تاکہ ان غلط عقائد و افکار کی جر کٹ جائے جس کی ٹہنیوں پر کوئی نسبی تعلق رکھنے والے عقیدت مند عوامی گمراہی کے لیے آشیانے بناتے ہیں اور وہ عوام کی نجات کے اجارہ دار بن کر جنت کی الاٹمنٹ پر کوئی رشوت وغیرہ نہ بٹور سکیں جو لوگ اس نعرہ مستانہ میں مگن ہیں کہ ہمارے نانا افضل الانبیاء ہیں ۔ لہٰذا عقائد و اعمال کی ناگوار صورت بھی ان کے طفیل ہمارے لیے موجب عذاب اور ثابت نہ ہوگی۔ یہ لوگ بد اعتقادیوں اور بدکاریوں میں ڈوب کر بھی مست ہیں ۔
|