Maktaba Wahhabi

318 - 366
واقعہ سے ہی اندازہ لگا لیجئے، پھر یہ میت کس کے پاس پیش ہو رہی ہے، اور کیا اس کے کارندوں کو فریب بھی دیا جا سکتا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کی ذات علیم بذات الصدور نہیں ہے؟ تو پھر میت کے احوال و اعمال کے مطابق جو کچھ فرشتوں کو حکم دیا گیا ہے اس میں وہ کفن کو دیکھ کر کوئی رعایت کر سکتے ہیں ؟ کیا اس کے فرشتے ریلوے کے بابوؤں پر قیاس کیے جا سکتے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر انسانوں کے گھڑے ہوئے بے بنیاد اور کاغذی سہارے ایک معقول انسان کے لیے وجہ اطمینان و توکل ہر گز نہیں ہو سکتے، اگر یہ فعل میت کے لیے تخفیف عذاب یا کسی بھلائی کا سبب ہوتا تو کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کلمہ طیبہ لکھانا نہیں آتا تھا؟ عہد نامہ کن لوگوں اور کس دور کی تصنیف ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا نہیں کیا تو الفی لکھنا بدعت ٹھہرا، اور بدعت تخفیف عذاب کا سبب نہیں بلکہ عذاب کا موجب ہے۔ اگر قبر میں حساب و کتاب کے مراحل اور برزخی زندگی کے احوال و ظروف، کفن لکھنے سے بدلے جا سکتے تو شاید ایمان و عمل کی بہت کم ضرورت محسوس کی جاتی، اور راحت و نجات کا نسخہ بڑا آسان تھا، افسوس! رحمۃ للعالمین کو یہ بات نہ سوجھی جن کی شان و بالمومنین رؤف رحیم، خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔ وہ جو زندوں مردوں سبھی کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے ہیں قبر کے سوال و جواب کی مشکل گھاٹی سے نجات یاب ہونے کے لیے الفی لکھنے کا سہل ترین عمل آپ نے کیوں نے سکھایا۔ موت و حیات کے تمام مفید اور ضروری مسائل رحمۃ للعالمین اپنی امت کو سکھا کر ایک کامل دین ہمارے لیے چھوڑ گئے ہیں اس دین میں الفی لکھنے کا اضافہ ایک بدترین بدعت ہے جس پر اصرار کی بجائے اس سے توبہ کرنی ضروری اور خود اپنے لیے بہتر ہے۔ جنازہ کے ساتھ ذکر بالجہر: میت کو قبرستان لے جاتے ہوئے اونچا ذکر کیا جاتا ہے۔ ذکر الٰہی روحانی مسرت اور طمانیت قلب کا واحد علاج ہے۔ لیکن یہی ذکر الٰہی اگر بے محل اور خلاف سنت پڑھا جائے تو موجب عذاب بن جاتا ہے۔ جہاں اللہ و رسول نے اس عبادت کو بالجہر پڑھنے کا حکم دیا ہے
Flag Counter