نہیں ملتی۔ وہ موجب ثواب نہیں باعث عذاب ہے۔
قرآن مجید کا ختم:
قرآن کریم کی تلاوت بلاشبہ خیر و ثواب کا موجب اور ازد یاد ایمان کا ذریعہ ہے مردے زندے سبھی اپنے مراحل اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق فیض حاصل کر سکتے ہیں ۔ زندوں کا فرض ہے اسے پڑھ کر راہ ہدایت قبول کریں ، اور اس پر قائم ہیئت و ایام کے بغیر اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے میتوں کی کربت و تکلیف میں تخفیف کر دیتا ہے۔ لیکن یہی سبب خیر و راحت۔ اگر ایسے طریقہ پر عمل میں لایا جائے۔ جسے شارع کی سنت اور طریق عمل سے کوئی مناسبت نہ ہو تو یہی بات نہ صرف بے اثر بلکہ الٹا موجب عذاب بن جاتی ہے۔ صحیح طریقہ سے سنکھیا جیسے مہلک چیز سے آب حیات کا کام لیا جا سکتا ہے، اور غلط طریقہ سے آب حیات اور شیر و شہد جیسی مفید ترین اشیاء بھی سم قاتل بن جاتی ہیں ۔ یہ رواج جو عوام میں جاری ہے کہ کسی تعلق دار کے مرنے کے بعد مقرر دن میں چند ملا اکٹھے کر کے قرآن کا ختم دلوایا جاتا ہے۔ تاکہ اس طرح مردہ کو ثواب پہنچایا جائے، اس طرح ایصال ثواب کی کوئی سند باوجود انتہائی تحقیق کے کتاب و سنت میں ہمیں نہیں مل سکی۔ زندوں اور مردوں کو آرام و راحت اور فلاح و نجات کے لیے جو فعل بھی مفید اور موثر تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا کم و کاست امت کو سکھا دیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ نے زندگی کے تمام فرائض و واجبات سکھائے لیکن مردوں کو بخشوانے اور ثواب پہنچانے کا کوئی طریقہ نہ سکھایا ہو۔ ہمارا ایمان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں نہ کوئی غفلت و خیانت ہوئی ہے، اور نہ کوئی سہو و لغزش نہ اللہ تعالیٰ نے اکمال دین میں کوئی کسر باقی چھوڑ دی تھی۔ صحابہ کرام جیسی جان چھڑکنے والی جماعت کی موجودگی میں سردار و جہان کا وصال ہوتا ہے لیکن آپ کے بعد کبھی اس طرز پر قاریوں اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے ختم قرآن نہیں پڑھا۔ وہ کیسے پڑھتے جبکہ ان کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بارے میں نہ تو کوئی سنت موجود تھی نہ ہی ترغیب و حکم۔ آپ کی موجودگی میں بڑے بڑے اولوالعزم اور جان نثار صحابہ فوت ہوئے کسی پر آپ نے ختم نہیں پڑھا،
|