’’یہود و نصاریٰ کہتے ہیں ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ۔ ان سے پوچھیے پھر اللہ تمہیں تمہارے گناہوں پر سزا کیوں دیتا ہے بلکہ تم بھی اللہ کی مخلوق اور عام آدمیوں کی طرح ہو۔ وہ جسے چاہے بخشے گا جسے چاہے سزا دے گا۔‘‘
یہ لوگ اس ضبط میں الجھ گئے کہ وہ ابراہیم، اسحاق اور یعقوب علیہم السلام کی اولاد میں اور ان کے اکابر اللہ کے مقرب ہیں اور بزرگ لوگوں کی اولاد ہونا اللہ کے تقرب اور نجات کے لیے کافی ہے۔ عمل و اطاعت کی چنداں اہمیت نہیں ہے۔ یہیں سے یہ غرور بھی پیدا ہو گیا کہ دین و ایمان اور فلاح و نجات ہمارے واسطہ سے مل سکتی ہے۔ اس کے لیے کوئی دوسری قوم وسیلہ نہیں بن سکتی، باعظمت قوم ہماری اولوالعزم نبی ہمارا ہدایت ہماری اس لیے ہم عام لوگوں سے برتر اور لائق ترجیح ہیں ۔ ہم بڑے لوگوں کی اولاد ہیں ۔ اللہ تعالیٰ بھی ہمارا ضرور پاس رکھے گا اور ہمارے ہی وسیلہ سے لوگوں کو ہدایت ملا کرے گی۔ بس اسی قسم کے تصورات پر وہ اپنے نسلی تکبر و بڑائی کے محل تعمیر کر کے عوام کو حقیر اور خاک نشیں سمجھتے تھے، یہی غرور اہل کتاب کو قبول حق کی راہ میں آڑے آ گیا، وہ یہ سمجھتے تھے کہ آئندہ نبی بھی ہم میں سے آئے گا۔ لیکن جب بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیل سے پیغمبر مبعوث ہوا۔ حمیت جاہلی اور قومی تعصب میں مخمور انسانوں نے آپ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا کہ یہ ان کی قوم سے نہیں تھے۔
قومی اور گروہی عصبیت:
بعینہٖ یہی جہالت آج بھی عوام میں گردش کر رہی ہے۔ قومی اور گروہی تعصب حق کی راہ میں بہت بڑی چٹان ہے۔ اس سے کئی ایک سیاسی معاشرتی اخلاقی اور تہذیبی مفاسد پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اس لیے اسلام نے قومیت کے بت پر سب سے پہلے کاری ضرب لگائی، اور اعلان کر دیا: ﴿اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ﴾ آئندہ شرف و کرامت کا معیار قومیت اور نسلی برتری نہیں ، بلکہ عمل و اخلاق اور اعتقاد و سیرت کو شرافت و عظمت کے میزان میں تولا جائے گا۔ اکابر کی اولاد ہونے اور قومی شرف و نجابت کو وزن میں لایا ہی نہیں جائے گا۔ اسلام انسانوں سے غیر فطری امتیازات اور جاہلی تفریقات کو مٹانے کے لیے آیا ہے بحیثیت انسان
|