Maktaba Wahhabi

308 - 366
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ذر تو کالے گورے سے صرف تقویٰ کی بناء پر فضیلت حاصل کر سکتا ہے۔‘‘ تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں رنگ و نسل اقوام و شعوب گروہ و قبائل اور زبان و وطن کی تقسیم اپنی جگہ پر مسلم لیکن یہ تمام نسبتیں وجہ فضیلت لائق فخر قابل ترجیح اور موجب فلاح نہیں ہیں ۔ اگر نسب و خون کا تعلق کچھ کار آمد ہوتا تو پیغمبروں اور اولیاؤں کی آل ازواج کو عمل کی قطعاً ضرورت نہ ہوتی، اللہ کا دین پوری انسانیت کے لیے نہ ہوتا اور تمام انسانوں کو مساوات اور یکسانیت کے زرنگاہ تخت پر نہ بٹھاتا، اگر گورے اور سرخ رنگوں پر نجات تقسیم ہوتی تو پھر صرف یہی لوگ جنت میں جاتے۔ مال و دولت یا دنیوی اقتدار و رسوخ موجب فلاح ہوتا۔ تو پھر غریبوں اور متوسط طبقہ کی اکثریت سے اس محروم رہ جاتی تو اس طرح فاطر کائنات کے نظام عدل و مساوات پر بدنما دھبہ لگتا، اور اطاعت و عمل صالح (جس کے لیے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا ہے) کی کوئی وقعت باقی نہ رہ جاتی۔ اب اس آئینہ میں آل رسول ہونے کا فخر کرنے والوں کو اپنے چہرۂ اعمال کا جائزہ لے کر اپنے ایمان و اسلام کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ اقبال رحمہ اللہ نے اسی لیے قوم کو خطاب کیا تھا: یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغاں بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ظاہری رنگوں کا اختلاف: ایک فطری امر ہے جس کی شریعت میں کوئی اہمیت نہیں ، لیکن اسلام دلوں کی یک رنگی ضرور چاہتا ہے، جن کے سامنے متحدہ نصب العین ہو، جن کا معیار حق و باطل، مرکز ہدایت، قانون حیات اور اسوۂ عمل صرف ایک ہی ہو اسی سے افراد ملت میں اتحاد و یگانگت کی روح بیدار ہو کر تنظیم باطل کا زہرہ آب آب کر سکتی ہے اور امت میں افتراق و انتشار کے شگاف بند کیے جا سکتے ہیں ، ساز فکر میں سوز حق پیدا کرنا صرف توحید کا کام ہے، یہی سیاہ دلوں کو منور کر سکتی ہے:
Flag Counter