ہو سکتی نہیں ، لیکن جو لوگ اور کوئی کام نہ جانتے ہوں تو پھر انہیں وسیلہ کے نقارہ پر چوٹ لگا کر تحریفات کی تشہیر کرنے اور من مانی تفسیریں کرنے کے بغیر اور کوئی مشغلہ اختیار کرنا آتا ہی نہیں ۔ عوام کی سادہ لوحی سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے یہی تو حیلے ہیں ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بے عملی کی شہ رگ کاٹ دی!:
بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں وارد ہے کہ جب آیت: ﴿وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ ’’اپنے قبیلہ والوں کو ڈراؤ۔‘‘ نازل ہوئی تو آپ نے عرب کے تمام بڑے قبائل کو بلایا اور سب سے کہا اے فلاں ! قبیلہ تم اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ۔ کیونکہ میں تمہاری کام نہ آ سکوں گا۔ پھر اپنے قبیلہ سے بھی یہی کچھ کہا۔ اس کے آخر میں اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی دو ٹوک فرمایا: اے فاطمہ! تو بھی اپنے آپ کو آگ سے بچانے کی سعی کر، میرے مال میں سے جو کچھ چاہیے مانگ سکتی ہے اور میں دے سکتا ہوں ، لیکن اللہ کے ہاں میں تمہیں ہر گز نہیں چھڑوا سکتا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ نے اس غلط فہمی و بے عملی کی شہ رگ کاٹ دی کہ ہمارے… قبیلہ کا یا ہمارا رشتہ دار یا میرا باپ منصب نبوت پر فائز ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا خیال رکھتے ہوئے ہمیں بغیر کسی عمل کے دوزخ سے بچا لے گا، اور سیدھا جنت میں بھجوا دے گا۔ یا کسی نبی کا رشتہ دار ہونے کی حیثیت سے اس سے کوئی باز پرس نہ ہوگی۔ اسی لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قبیلوں اور قریبی تعلق داروں کو بلا کر اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا۔ قرب الٰہی کے حصول اور اس کے عذاب سے بچنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے، یعنی میری اتباع میں اسلامی احکام کی بجاآوری، یہ بات تو دنیوی حکومتوں میں چل سکتی ہے کہ دنیوی تعلقات شخصی اثر و رسوخ ذاتی شہرت و اقتدار، رشتہ داریاں ، شخصی خوبیاں ، ذاتی کمال، علمی و فنی برتری، کثرت مال و اولاد وغیرہ ایک گرفتار بلا انسان کی رہائی کا سبب بن جاتیں اور دنیوی معاملات میں یہ سب امور کام آ سکتے ہیں ۔ لیکن ان کے ذریعہ اللہ کی گرفت سے اپنی بے عملی کی پاداش سے وہاں کوئی بچ نہیں سکتا، اور کسی کا کوئی لحاظ محض بزرگوں اور بڑوں کی نسبت کی وجہ سے نہیں کیا جائے گا۔ وہاں مکافات عمل کا قانون سب
|