تمام انسانوں کے لیے روز اول سے ان کی یہی خاصیت رہی ہے اور ہر ایک کے لیے رہی ہے اور قیامت تک یہی خاصیت رہے گی، اور معنوی خواص اور فطری نتائج ٹھیک ٹھیک برآمد ہو کر رہتے ہیں ۔ خواہ ان کا عامل کسی نبی سے نسبی تعلق رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔
وسیلہ بذات خود مختار نہیں :
اگر وسیلہ بذاتہ نافع و ضار اور مختار و متصرف یا حاضر و ناضر سمجھ کر اس سے استعانت کی جائے تو ایسا شخص اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ ’’علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک واسطہ کی ٹھیک حیثیت‘‘
’’آپ فرماتے ہیں اگر واسطہ کو دنیا کے بادشاہوں کی طرح قیاس کر کے اللہ کے سامنے حقیقت پیش کرنے والا سمجھے تو یہ سکھلا ہوا شرک ہے، کیونکہ بادشاہوں کی طرح قیاس کر کے اللہ کے سامنے حقیقت پیش کرنے والا سمجھے تو یہ کھلا ہوا شرک ہے کیونکہ بادشاہوں اور عوام کے درمیان تو حجاب ہوتا ہے اور ان کے درمیان کئی واسطے ہوتے ہیں اور یہ واسطے عوام کے حالات و مشکلات اور ان کی حوائج سے بادشاہ کو آگاہ کرتے ہیں ، اللہ کا حال بادشاہوں پر قیاس کرنا بہت بڑا کفر ہے، اس لحاظ سے بھی کہ اس کا نظام حکومت مخلوق کے طرز حکومت سے مختلف ہے اور اس کی کوئی بات مخلوق پر قیاس نہیں کی جا سکتی، ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْئٌ﴾ اور اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ اللہ علیم و خبر اپنی مخلوق سے نہ تو دور ہے نہ اس کے درمیان پردے میں اور نہ وہ اپنے بندوں کے حالات سے بے خبر ہے۔ اسے تو اونچا سنانے کی بھی ضرورت نہیں پھر کوئی واسطہ اس کا ہم پلہ وہم عصر بھی نہیں یا اس سے کچھ نہ کچھ مماثلت نہیں رکھتا۔ جس سے متاثر ذکر اللہ تعالیٰ سائل کی درخواست ضرور ہی قبول کرے وہ بغیر کسی تعاون و اشتراک کے اپنی مخلوق کے تمام حالات سے آگاہ ہے۔
وسیلہ کا جاہلانہ تصور:
جو لوگ بزعم خود وسیلہ بن کر اپنے آپ کو یا اپنے آباؤ اجداد کو پجواتے ہیں ، وہ اسی جاہلانہ تصور میں مبتلا ہیں کہ ہم کسی نہ کسی متبرک مقام فلاں نبی اور فلاں بزرگ سے نسبت
|