رکھتے ہیں ، اور ہماری نسل بزرگ و تقدس اور ہمارا قومی تفوق اللہ تعالیٰ کو ہماری بات منوانے پر آمادہ و مجبور کر دے گا، اور اتنے بڑے شہنشاہ کی بارگاہ میں مقربین اولیاء مشائخ اور بزرگ لوگ ہی اپنے مریدوں اور طالبوں کی درخواستیں پیش کرنے کی جرأت کر سکیں ۔ جب ایک کمشنر گورنر و صدر مملکت کی خدمت میں براہِ راست درخواست دینی مشکل ہے بلکہ محکمانہ آئین کے مطابق ادنیٰ واسطوں سے اوپر بھجوائی جا سکتی ہے اور یہی طریقہ اس کی رسائی و مقبولیت کا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ خدائے ذوالجلال کے دربار میں بغیر بھی وسیلہ کے درخواست دھکیل دی جائے جو سراسر بے ادبی ہے، اللہ سے اس قسم کے تصورات قائم کرنا ایک توحید آشنا بیان کے لیے ہر گز موزوں نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تمام حجابات ہٹا رکھے ہیں جو دنیا والوں نے اپنے اوپر ڈال دیے ہیں ۔ جب بھی کوئی پکارے جب بھی کوئی عجز و احتیاج کا ماتھا اس کے سامنے ٹپک دے اور جب بھی کوئی اپیل و انابت کے اشکوں سے لکھ کر ہمارے پاس گزار دے۔ اس کی اپیل ضرور سنی جائے گی۔ رد و قبول میری منشا و حکومت نصر ہے۔ لیکن ہماری مخلوق کی صداؤں اور التجاؤں کے ہم تک پہنچنے میں نہ کوئی روکاوٹ ہے اور نہ کئی پابندی یا دیر۔
اس قسم کے جاہلانہ ہتھکنڈوں اور مثل خانہ عنکبوت وسائل میں ایک انسان اسی وقت پھنستا ہے جبکہ اسے اللہ تعالیٰ کی صفات وشئون کا ٹھیک علم نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنی مخلوق سے متعلق مسائل کی وضاحت خود ہی قرآن میں بیان فرمائی ہے۔ ذیل میں وہ آیات دی جاتی ہیں جن کے ذریعہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں سے دور لا تعلق اور ان کے حالات سے بے خبر نہیں ہے۔
(۱)… ﴿وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ﴾ (البقرۃ: ۱۸۶)
’’اے نبی جب ہمارے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو ان سے کہہ دیجئے کہ میں ان کے بالکل قریب ہوں جب کوئی پکارنے والا بلاتا ہے تو میں اسے جواب دیتا ہوں ۔‘‘
|