چاہی تھی۔ وہ ایسے ہی تماشہ گاہوں تھیٹروں اور میلوں میں مختلف تصاویر کے ذریعہ اپنی کامیابی پر اچھلتی تھرکتی اور ناچتی نظر آ سکتی ہے۔
ممکن ہے کسی کو طوائفوں کے حیا سوزگیت اور ان کے ایمان طلب نغمے روحانیات کی اونچی فضاؤں میں اڑا لے جاتے ہوں ۔ یہ بھی ممکن ہے، شباب و رنگینی اور رقص و سماع کی وجد آفرینیوں اور اس قسم کی کیف اور محفلوں میں تزکیہ نفس کی منازل طے کرنے میں روحانی امداد ملتی ہو پھر ایسے ماحول میں وجد وحال کی بیخو دانہ کیفیات پیدا ہو کر تقرب الٰہی کے آسمان نظر آ جاتے ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے طوائفوں کے قدم رنجہ سے زیر مزار آرام کرنے والے بزرگوں کے شرف و فضیلت میں اضافہ ہوتا ہے، (مجاوروں کے خیال کے مطابق) یہ بھی قرین قیاس ہے کہ (طوائفوں کے) زائرین کے بے تابانہ ہجوم کو دیکھ اور سن کر بزرگوں کی ارواح مسرت و شادمانی کے عالم میں وجد کرنے لگیں ، (مشرکین کے اعتقاد کے مطابق) لیکن اللہ و رسول کی واضح تعلیم میں اس فحاشی و عریانی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ کسی کو قال اللہ وقال الرسول کے حیات پرور نغموں سے دلچسپی نہ ہو، اور لغویات ہی میں اپنی روح کی تسکین پاتا ہو تو اسے اختیار ہے۔ اپنی مرغوب غذا حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن آسمانی شریعت منکرات میں نسل انسانی کے لیے کوئی خبر نہیں دیکھتی۔
مزارات کی کوٹھڑیوں میں :
کہیں عشق و محبت کی گھاتیں ، وصال و فراق کی کشمکش، جوئے کے داؤ، شراب خوری اور شراب سازی کے مشغلے، اغوا و ڈکیتی کی سکیمیں عروج پر ہوتی ہیں ۔ کہیں بھنگ کا رگڑا چل رہا ہے۔ کہیں چنڈو اور چرس کے کش لگ رہے ہیں کوئی افیون کی گولیوں سے عروس حیات کے مسرت آفرین ولولوں کو ٹھنڈا کر رہا ہے۔ کوئی اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی اور زندگی کی بہترین صلاحیتوں ہمتوں اور قوتوں کو سگریٹوں کے دھوئیں میں بے تحاشہ اڑا رہا ہے، اور زندگی کی تلخیاں مٹانے کے لیے مسکرات و منشیات کا دور زوروں پر ہوتا ہے۔ عورتیں جب تبرج جاہلیت کے نمونے بن کر اولادیں لینے اور دل کی مرادیں پوری کرانے کے لیے مزاروں پر پہنچ
|