ڈھاتے ہیں ۔ بابر یہ عیش کوش پر عمل، حسن و شباب کا رنگین چلمنوں سے جھانکنا، ترغیبات فسق و فجور ہجوم، آزاد فضا، قانون احتساب سے کامل بے خوفی، درِ خواجہ پہ امنڈتا ہوا شباب اور اٹھتی جوانی کے لیے آئی ہوئیں قمریاں ۔ کون ہے جو ایمان کے نازک آبگینوں کو ایسے میں قدم قدم کو ٹھوکروں سے بچا سکے، عورت جب شرم و حیا کا نقاب الٹ کر اور مخلوط مجالس میں سبھاکی پری بن کر دعوت نظارگی کو عام اور جذبات و رومان کے بارود کے سامنے عریانیت و اشتعال کی آگ تیز کر دے تو کون کہہ سکتا ہے کہ خرمن ایمان و اخلاق محفوظ رہ سکے گا، کیا پنبہ و آتش کی چشمک میں آج تک کسی نے خیر دیکھی ہے۔
بے حیائی جب قوس قزح کی آنچل گلے میں ڈالے ہوئے بازار عالم میں قہقہوں کی شیشہ گری عام کرنے کے لیے نکل آتی ہے اور جمال شعلہ فشاں کی خطر ناک آنچ دامن دل کے قریب آ پہنچے تو بڑے بڑوں کے تقویٰ و زہد کی برف پگھلنے لگتی ہے۔ کیا عورت کی تخلیق اسی لیے ہوئی ہے کہ اسے میلوں اور تماشہ گاہوں میں اشتعال انگیز صورت میں پیش کر کے سفلی جذبات کی تسکین کا سامان مہیا کیا جائے، اس سے بڑھ کر عورت کی اور توہین کیا ہو گی کہ قوم کی تجارت چمکتی نہیں جب تک کہ وہ اشتہارات میں عورت کو عریانی کے انداز میں پیش نہ کرے۔ جادو اثر موسیقی جس کے زیر و بم کے پیچھے پیچھے روح لپکتی رہتی ہو۔ آج کل کے تھیٹر ہال میں سنی جا سکتی ہے جس میں جنسیات کے بارود کو بڑی خوبصورتی سے اشتعال کی آگ دکھائی جاتی ہے۔ دل میں ترازو ہونے والی ادائیں اور دامن دل کو قدم قدم پر کھینچنے والے نئے نئے فیشن یار لوگ یہیں سے سیکھ کر جاتے ہیں ، اخلاقی بے راہ روی اور جنسی آزادی کے متحرک نمونے یہیں سے ذہن میں اخذ کیے جاتے ہیں ، پھر دوسرے اوقات میں ان کی ریہرسل کی جاتی ہے۔ لیکن جنہیں سینماؤں میں جانے جھجھک اور خوف خلق کا احساس ٹوک رہا ہو۔ ان کے لیے ایسے مشہور میلوں میں تسکین نفیس کا پورا پورا سامان مہیا کیا جاتا ہے۔ یہاں شرعی حدود کی پامالیوں پر کوئی باز پرس نہیں اور زیارت کے بہانے کوئی گناہ بھی لازم نہیں آتا۔ انگریز نے اپنے ماحول اور اپنے زیر اثر لوگوں میں جس بے حیائی و بد اخلاقی کی روح پیدا کرنا
|