کسی کا گناہ کیسی شریعت کہاں کا دیں
میں ہوں اسیر خواجہ کی زیف و راز میں
کیا باطن کی صفائی کے ساتھ ساتھ دین کی صفائی میں بھی کوئی کسر باقی رہ گئی ہے؟ ’’اچھا تو پھر اک نگاہ ادھر بھی‘‘ مخمور نگاہیں ، پھر ان نگاہوں کی فتنہ خیزیاں مسحور کن نغمہ ریزیاں اور ان کی فضاؤں میں ارتعاش انگیزیاں ، دلربایانہ اداؤں کے ساتھ حسین آنکھوں سے چھلک پڑنے والے تبسم کی گل ریزیاں ایک ایک عضو سے دعوت عیش دینے والا جوش شباب تہذیب مغربی کی ایک ایک ادا پر فدا کار تتلیاں آزادی و بے حیائی کا رنگیں سماں ، فسق و فجور کی دلفریب اندوزیاں ، نوخیز و بدمست دو شیزاؤں کی ہلکی ہلکی ٹھوکریں ، زیبائش و آرائش کی دلربائیاں ، مختلف اداؤں سے آراستہ زلف و گیسوں کی نکہت باریاں ، جمال عریاں کی دعوت نظارگی، کیف و سرور کی معطر فضا لالہ فام ہونٹوں سے ابلنے والی دلنواز موسیقی جیسے حسن و نغمہ اور شعر و جوانی کے خطے پر جمال و عشق کی پوری دنیا سمٹ آئی ہے۔ پھر اس پر مذہبی تقدس کا دو آتشہ، بڑے بڑے جبہ پوش و عمامہ بردار لوگوں کی سرپرستی و حضوری۔ بدن کی ہر ہر جنبش سے طوفان حسن و شباب کو اچھالنے کی بے تابیاں ، ابلتی جوانی پر اس میں جذبات کی طغیانیاں ، ضبط کے شیشے، یہ ہے وہ رنگین ماحول اور یہ ہے وہ محفل عیش و نشاط جو زمین کے ایک مخصوص قطعہ پر منعقد کی جاتی ہے، جہاں ہنگامہ حسن و عشق کی فریب کاریاں پورے شباب پر ہوتی ہیں ، رقاساؤں کا جادو اثر اور مدہوش کن رقص جب انتہائی عروج پر ہوتا ہے تو رزق حرام عوام کی جیبوں سے اچھل کر ان پر نوٹوں کی بارش برسانا شروع کر دیتا ہے، بعض دل پھینکتے ہیں اور بعض نقد ایمان ان کے قدموں پر نچھاور کرتے ہیں ۔ عنوان رقص میں جب وہ بدمست اور کن نگاہیں مجمع پر ڈالتی ہیں تو پورے مجمع پر سکرد گداز اور خودی و مدہوشی کا عالم چھا جاتا ہے۔ درافتگی و بے اختیاری کا یہ عالم کہ جادو اثر نگاہیں جدھر چاہیں کسی کو اٹھا کر پھینک دیں ۔ خود فراموشی کے عجیب منظر اور کیف و وجد کے ہوشر با مناظر میں ضبط و قرار کا اختیار کیے رہتا ہے یہاں پگڑیاں ہی نہیں دل بھی اچھلتے ہیں اور ضبط نا آفنا جذبات کے طوفان قیامت سے پہلے
|