طبقہ کی معاشی مشکلات کے حل کے لیے مخصوص نہیں ہے کہ: قرآن پڑھے ہوئے لوگ اجرت پر لوگوں کو مغفرت و ثواب کے پروانے دے کر رقم بٹورتے اور روٹیاں جمع کرتے پھریں ، اس کے ہاں پوری انسانیت کی معاشی مشکلات حل کرنے کا فارمولا الگ ہے اس کے لیے اسلام کے معاشی نظام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
میت کے لیے خیرات پکانا:
مذکورہ عبادت میں آپ یہ معلوم کر چکے ہیں کہ علماء نے میت کے بعد خیرات پکانے کو موجودہ ہیئت کے ساتھ بدعت لکھا ہے، اسی فتاویٰ کی کتاب الوصیۃ، ج: ۶، ص: ۴۳۹ میں لکھاہے:
’’اگر کوئی شخص یہ وصیت کرے کہ میرے بعد میری قبر پر کوئی قاری قرآن پڑھے… یا اس پر قبہ بنایا جائے تو یہ وصیت باطل ہے، امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ نے قبروں میں قرآن خوانی کو اسی لیے مکروہ سمجھا ہے کہ اس کی کوئی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے نہیں ملتی۔‘‘
(فتاویٰ بزازیہ)
لیکن ملاؤں نے پیٹ کے لیے قبروں پر قرآن خوانی جاری کر دی۔ شیخ علی متقی حنفی لکھتے ہیں :
((الاجتماع لقرأۃ القرآن علی المیت بالتخصیص فی المقبرۃ اوالمسجد اوالبیت بدعۃ مذمومۃ۔)) (رسالہ ردبدعات)
’’میت پر قرآن خوانی کے لیے جمع ہونا خصوصاً مقبرہ مسجد یا اس کے گھر پر اسی غرض کے لیے اکٹھا ہونا بدعت مذمومہ ہے۔‘‘
لیکن اسی غرض سے مقامات پر نفس پرست ملاؤں کی قیادت میں قرآن خوانوں کے اجتماع ہوتے ہیں ۔ نفسانی اغراض کے نقارے پر جب چوٹ پڑر ہی ہو تو ایسے میں علمائے حق اور بزرگوں کی آواز کان پڑی سنائی نہیں دیتی۔
میت کے بعد خیرات پکا کر تقسیم کرنا بھی بدعت ہے جن لوگوں کے ہاں یہ رسم جاری ہے اس کے مفاسد وہاں دیکھے جا سکتے ہیں ، میت کے لیے نہ تو کوئی قبرکھودتا ہے اور نہ اس کی
|