Maktaba Wahhabi

329 - 366
۸۔ شیخ علی المتقی استاذ شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنے رسالہ رد بدعت میں فرماتے ہیں : ((الاول الاجتماع للقرأۃ بالقرآن علی المیت بالتخصیص علی المقبرہ اوالمسجد والبیت بدعۃ مذمومۃ لانہ عمن ینقل فی الصحابۃ شیئًا انتہی۔)) ’’یعنی میت پر قرأت قرن کے لیے اجتماع خصوصاً اس کے مقبرہ پر یا گھر یا مسجد میں نہایت بری رسم اور بدعت ہے، کیونکہ صحابہ سے ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے۔‘‘ ۹۔ علامہ الخلوقی نے المنتہیٰ الحنبلی، کے حاشیہ میں شیخ الاسلام تقی الدین سے نقل کیا ہے کہ: قرأت پر اجرت حاصل کرنا اور قرأت کا ثواب میت کو بخشنا قطعاً صحیح نہیں ، کیونکہ کسی امام سے بھی اس کی اجازت منقول نہیں ہے، اور علماء نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص مال کے لیے پڑھتا ہے تو اسے تو خود کچھ بھی ثواب نہیں ملتا۔ پھر وہ میت کوکیا بخشے گا؟ میت کو تو صرف نیک اعمال پہنچتے ہیں ، اور محض تلاوت پر اجرت لینے کا کوئی ایک امام بھی قائل نہیں رہا۔ ائمہ کانزاع و اختلاف تو صرف تعلیم پر اجرت لینے کے متعلق ہے۔ [1] ۱۰۔ اس میں سے میت کا وصیت کرنا ہے۔ اپنی موت کے دن یا اس کے بعد کھانا تیار کرنے اور ضیافت کرنے کے متعلق اور اس شخص کو رقم دینے کے متعلق جو اس کی روح کے لیے قرآن یا تسبیح یا کلمہ طیبہ پڑھے یہ تمام امور بدعت ناجائز اورسراسر باطل ہیں اور چیز لینے والے کے لیے جو کچھ اس نے اجرت کے طور پر لیا ہے حرام ہے اور وہ دنیا کے لیے تلاوت اور ذکر کرنے کی بناء پر گنہگار ہے۔ [2] یہ تمام عبادات اس دین حق کی صحیح ترجمانی کرتی ہیں جو عوامی زندگی میں اخلاص و ہمدردی اور بھلائی و خیر خواہی کا بہترین جذبہ پیدا کرنا چاہتا ہے! اس کی کوئی تعلیم کسی خاص
Flag Counter