Maktaba Wahhabi

328 - 366
۴۔ اگر اس کے عوض میں دیے جانے والے روپے نہ ہوں تو وہ اپنے آپ کو اس تکلیف و مشقت میں ڈالے گا اور نہ وہ اپنی آنکھوں کو بیدار رکھے گا، بلکہ اس کام کو باطل ہی چھوڑ دے گا جب خالص دنیا ہی مراد و مقصود ہو تو پھر جواز کا حکم کیسے ہو سکتاہے!! ۵۔ اور اس سے ہمارے زمانہ کے لوگوں کی وصیتوں کا حال معلوم ہو چکا کہ: ایک شخص کے ذمہ بہت سی نمازیں اور اس کے علاوہ زکوٰۃ اور قسموں کا فدیہ ہوتا ہے اور وہ ان چیزوں کے لیے تو تھوڑی سی رقم کی وصیت کرتا ہے اور زیادہ تر وصیت کلمہ طیبہ کے ختم پڑھنے کے لیے کرتا ہے جس کے متعلق ہمارے علماء نے تصریح کی ہے کہ یہ وصیت جائز نہیں ، اور یہ بھی کہ کسی دنیوی مقصد کے لیے پڑھنا جائز نہیں ، نیز اجرت لینے اور دینے والے دونوں گنہگار ہیں ، کیونکہ یہ قرأۃ پر اجرت طلب کرنے کے مشابہ ہے اور قراء ت پر اجرت طلب کرنا ہی ناجائز ہے۔ [1] ۶۔ اہل میت کا پہلے تیسرے اور ساتویں دن کے بعد کھانا تیار کرنا اور معین اوقات میں قبر پر کھانا لے جانا اور قرآن پڑھنے کے لیے دعوت تیار کرنا، نیک لوگوں اور قاریوں کو قرآن کے ختم کرنے یا سورۂ انعام اور اخلاص پڑھنے کے لیے جمع کرنا مکروہ ہے! [2] ۷۔ علامہ عینی نے ہدایہ کی شرح میں کہا ہے: اور دنیا کے لیے پڑھنے والے کو روکا جائے لینے اور دینے والے دونوں گنہگار ہیں ۔ حاصل یہ کہ اجرت پر سپارے پڑھنا جس کا ہمارے زمانہ میں رواج ہے ہر گز جائز نہیں ، کیونکہ اس میں قرآن پڑھنے اور آمر کو ثواب بخشنے کا حکم ہے، اور یہ پڑھنا محض مال و دنیا کی خاطر ہے، جب صحیح نیت نہ ہونے کی وجہ سے پڑھنے والے ہی کو ثواب نہ ملا تو مستاجر کو کیسے ملے گا؟ اگراجرت نہ ہو تو کوئی بھی کسی کے لیے اس دور میں نہیں پڑھتا بلکہ لوگوں نے تو قرآن عظیم کو کمائی کی چیز اور دنیا جمع کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ [3]
Flag Counter