Maktaba Wahhabi

327 - 366
ہونے کی صورت میں ہے کوئی خیال نہیں رکھا، تو پھر اللہ کی آیات کہ بدلے میں قلیل اور حقیر سی رقم کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے، (جبکہ اس کے بند ہو جانے میں کوئی دینی نقصان بھی نہیں ) تو پھر کون سی دینی ضرورت ہے جو اس کے جواز کے لیے دلیل بن سکے۔ جبکہ تم امام مالک اور امام شافعی جیسے جلیل القدر اماموں سے یہ روایات سن چکے ہو کہ قرأۃ اور اس جیسی دوسری بدنی عبادات کا ثواب اجرت کے بغیر بھی نہیں پہنچتا تو پھر اجرت کی صورت میں کیسے پہنچے گا۔‘‘ [1] ۲۔ اس کے علاوہ قرأت بذات خود عبادت ہے اور ہر عبادت میں یہ ضروری ہے کہ وہ بلا کسی ریا و نمود کے محض اللہ تعالیٰ کے لیے ہو، تاکہ وہ ایسی عبادت بن سکے، جس پر ثواب کی امید کی جا سکے، اور علماء نے ریا کی یہ تعریف کی ہے کہ عبادت سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے بغیر کوئی دوسری چیز مقصود و مطلوب ہو، پس اجرت پر پڑھنے والے کا ثواب تو وہ مال ہے جس کے لیے اس نے پڑھنے کا ارادہ کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور جب پڑھنے والے کو کچھ ثواب نہ ملا تو وہ نفع جو مستاجر کا مقصود تھا حاصل نہ ہو سکا۔ کیونکہ اس نے تو اسے ثواب کی خاطر اجیر بنایا تھا۔ پس یہ اجارہ ہی صحیح نہیں ہے۔ [2] اور تار تار خانیہ میں وصایا کی فصل نمبر ۲۹ میں ہے کہ: ۳۔ جب کوئی شخص یہ وصیت کرے کہ فلاں شخص کو اس کے مال سے اتنا حصہ دیا جائے تاکہ وہ اس کی قبر پر قرآن پڑھے تو یہ وصیت باطل ہے جائز نہیں ، خواہ پڑھنے والا معین ہو یا غیر معین اس لیے کہ یہ قائمقام اجرت کے ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت پر اجرت لینا جائز نہیں ، اور جب شک کی صورت میں یہ حکم ہے تو پھر اس شخص کی طرح جو قرآن اور ذکر کو اپنے لیے دکان بنا لیتا ہے کہ اس سے گزر اوقات پیدا کرے۔
Flag Counter