رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ائمہ کرام کے کون سے قول و فعل کی اطاعت ہے۔ اگر یہ سب کچھ نفس و ہوا کی اتباع ہے تو پھر اپنے اسلام کی خیر منانی چاہیے۔
قبروں پر چراغ جلانا:
ضعیف الاعتقاد اور مریض القلب قسم کے لوگ بزرگوں کی قبروں پر مقررہ رات کو چراغ جلا کر ان کی خوشنودی اور ثواب و نیکی حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں معلم خیر نے اس سے بھی منع فرمایا:
((لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ وَالْمُتَّخِذِیْنَ عَلَیْہَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ۔)) [1]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی مستورات، ان پر مسجدیں بنانے والوں اور ان پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
اسلام توہمات اور لا یعنی اعمال کو سختی سے روکتا ہے، ایسا سوراخ شیطان اگر کہیں پیدا کرتا بھی ہے تو اسلام اسے فوراً بند کر دیتا ہے جس قبر میں حسن عمل کی روشنی موجود نہ ہو اور صاحب قبر خود اپنے لیے اس دنیا سے کتاب و سنت کے مطابق اعمال صالحہ کی نورانیت سمیٹ کر نہ لے گیا ہو، اس کے بعد اگر اس کی قبر پر چراغ، قندیلیل اور روشنی کے ہزاروں قمقمے روشن کر دیے جائیں اور آفتاب بھی اپنی روشنی کی شعاعوں کو ہر روز اس پر بکھیر دے، لیکن اس کے باوجود صاحب قبر کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا، اس لیے عالم برزخ میں عالم دنیا کے طبعی اسباب کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچا سکتے، اگر قبر کے اندر بھی روشنی سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت موت کے بعد بالکل ختم ہو گئی، اور عالم برزخ میں صرف عمل صالح کی روشنی ہی اس کے لیے کار آمد ہو سکتی ہے، اور بس بھلا قبروں پر چراغ میت کو کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں ؟ ہے کوئی منصف مزاج جو اس حقیقت پر غور کرے، یہ فعل نہ صرف یہ کہ بے سود ہے کہ اس کے فائدہ پہنچنے کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی
|