کی ضرورت اسی لیے محسوس ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات سے کامل آشنائی نہیں جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں ، اگر اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت ہی کا علم و شعور ہوتا تو پھر بندہ اس کی درگاہ چھوڑ کر غیروں کے دروازوں کی خاک کیوں چھانتا۔
اللہ تعالیٰ سے انسان کا تعارف اس کی صفت ربوبیت کے ذریعہ ہی کرایا گیا ہے، لیکن اس میں رحمت ہی روح جلوہ گر ہے۔ الحمدللہ رب العالمین کے بعد الرحمن الرحیم میں صفت رحمت کو ظاہر کیا گیا ہے اور اس کے بعد ہی صفت عدل و احتساب اور قہر و انتقام کا تذکرہ ہے۔ مالک یوم الدین، رحمت کے لیے ہیں جذبات و رجحان کی ایسی نرمی کو جس میں محبت شفقت فضل احسان بھلائی خیر خواہی ہمدردی جیسے تمام عناصر شامل ہوں ۔
اللہ کے بعد دوسرا عَلَم رحمان ہی ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے، رحم کرم لطف و مہر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایسی ذات جس کا ارادہ و سلوک اپنی مخلوق کے حق میں لطف و مہر اور محبت و شفقت سے پرجوش رہے اتنا ہی نہیں کہ وہ رحمان و رحیم ہے بلکہ:
﴿کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ﴾ (الانعام: ۱۲)
اس نے اپنی مخلوق سے لطف و نرمی اور محبت و شفقت کی بنا اپنے آپ پر صفت رحمت کو واجب کر لیا ہے۔
﴿رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ﴾ (الأعراف: ۱۵۶)
’’میری رحمت دنیا کی ہر ایک چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔‘‘
بڑے سے بڑے گناہ گاروں کو مژدہ:
﴿قُلْ یٰعِبٰدِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾ (الزمر: ۵۳)
کیسا ہی بڑا گناہ کتنا ہی عظیم فساد ہو جب بھی توبہ و انابت کا احساس بیدار ہو کر دل کی بے قراریوں میں اضافہ کر دے پھر آخر کار۔ اس کے باب رحمت پر دستک دے قبولیت کا
|