کے ذریعہ اس کا جنت میں پہنچنا یقینی ہے اور وہ متاع سفر اور زاد راہ کھو دے جو اس منزل میں کار آمد ہے۔ وہ یقین دلاتا ہے کہ تم انتہائی مجرم روسیاہ اور پاپی ہو اس لیے براہِ راست اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی درخواست پیش کرنے کے قابل نہیں ہو، اور پھر تنہا خود تمہار ے ہی اعمال نجات دلانے کے لیے کافی نہیں جب تک کہ ان کے ساتھ کسی بزرگ اور صالح کی سفارش یا کسی نیک کی روح وسیلہ نہ ہو، یا ابھی وقت ہے خوب عیش کر لو۔ نیکی و بدی کی تمیز میں وقت مت ضائع کرو۔ زندگی کی راحتیں فراہم کرنے کے لیے حرام و حلال کی خلش کو بھول جاؤ۔ اللہ غفور رحیم ہے اور یاد رکھو فلاں بزگ بڑا خدا رسیدہ اور عنداللّٰہ مقبول الدعا ہے، اس کا دامن پکڑ لینے سے تو اس کی رحمت ضرور ہی جوش میں آ جائے گی، لہٰذا اب تو جی بھر کر بہ عیش کو ش کہ عالم دوبارہ نیست، قرآن نے انہیں ہتھکنڈوں سے چوکنا رہنے کے لیے اعلان کیا تھا:
﴿وَ لَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ﴾ (لقمان: ۳۳)
خدائی صفات کے بارے میں کوئی انسان نما شیطان یا غیر مرئی شیطان تمہیں گمراہ نہ کرے، گناہوں کا بارود اس امید پر فراہم کرتے رہو کہ بڑا غفور رحیم ہے یا فلاں پیر بڑی کرامات کا مالک ہے، خطرہ بہر حال کہیں بھی اور کسی طرح بھی نہیں ۔ جنت تمہارے لیے مخصوص ہے۔ یہ سرا سر شیطان کا دھوکہ اور انسان کے خرمن حیات کے لیے چنگاری ہے۔ گناہوں کے بارود کو دوزخ کی آگ بہت دور سے بھڑک کر ملتی ہے۔ بہرحال شیطان کے خوش آئندہ وعدے زدر نفس کی طفل تسلیاں انسان کو عمل صالح کی شاہراہ پر نہیں آنے دیتیں ، اس لیے انسان ان اعمال سے تغافل برتتا ہے۔ ان کی اہمیت محسوس نہیں کرتا جو انسان کی فلاح و نجات کی ضمانت ہیں ، اور عمر بھر ان کمزور سہاروں سے چمٹا رہتا ہے جن کی انسانی سعادت و نجات کے لیے کوئی اہمیت نہیں ۔ پیروں فقیروں کے بے بنیاد سہاروں پر جینا اور اعمال صالح کے لازمی وسائل سے بے نیازی یقینا انسان کی دائمی رسوائی کا سبب ہے۔
وسیلہ اور شفاعت کے بارے میں دور از حقیقت کمزور اور غیر فطری سہاروں کی پناہ لینے
|