وسیلہ کا مفہوم اور اہل بدعت
بے عملی اور دین فراموشی کا بھوت جن سیڑھیوں پر چڑھ کر عوامی زندگی میں داخل ہوتا ہے، ان میں ایک وسیلہ کا غلط اور خود تراشیدہ مفہوم بھی ہے، جاہل پیروں کم علم فقیروں اور برخود غلط ملاؤں نے عوام میں اپنی سیادت قائم رکھنے کے لیے شیطان کا سکھایا ہوا یہ عجیب جادو عوام میں پھونکا ہے کہ انسان کی مشکلات و حاجات یا اس کی دعا و التجاء براہ راست قبول نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے کسی مقدس درمیانی وسیلہ اور طفیل کی ضرورت ہے جو اللہ کے حضور اسے شرف قبولیت دلا سکے، اپنے نفس امارہ کی زبان قرآن کے منہ میں دے کر اس آیت کا غلط مفہوم پیش کرتے ہیں :
﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ﴾ (المائدۃ: ۳۵)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور اس کا قرب حاصل کرو۔‘‘
اس آیت کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے ائمہ لغت اور مفسرین کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔
وسیلہ کا لغوی معنی:
لغت کے مشہور امام امام راغب اصفہانی نے اپنی کتاب مفردات میں وسیلہ کا معنی رغبت و قرب بیان فرمایا ہے: ابن جریر طبری کی تشریح کے مطابق تقرب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تمام ائمہ مفسرین نے وسیلہ کا یہی مفہوم بیان کیا ہے ’’الوسیلۃ یعنی القربۃ‘‘ امام شوکانی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
((فالسوسیلۃ القربۃ التی ینبغی ان تطلب وبہ قال ابو وائل والحسن و مجاہد وقتادۃ واسدی وابن زید وردی عن عباس
|