Maktaba Wahhabi

344 - 366
و عطاء و عبداللّٰہ بن کثیر قال ابن کثیر تفسیرہ وہذا الذی قالہٗ ہؤلاء الائمۃ لاخلاف بین المفسدین فیہ۔)) [1] اسلاف کرام نے اس کا معنی قرب ہی سمجھا اور بیان کیا ہے اور اس میں تفسیر کا باہم کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی تصنیف ’’الواسطۃ بین الخلق والحق‘‘ میں اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’اللہ اور مخلوق کے درمیان کوئی ایسا واسطہ ہونا چاہیے۔ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اعمال کا پتہ چل سکے، کن اعمال کی بناء پر وہ بندوں پر رحمت فرماتا ہے۔ اس کے اوامر و نواہی کیا کیا ہیں ، اللہ تعالیٰ کی صفات کیا کیا ہیں ، اور ان کے تقاضے کیا ہیں ۔ اس کی عبادات کے کیا طریقے ہیں آداب دعا کیا ہیں وغیرہ، یہ نہایت اہم واسطہ ہے اور یہ بعثت انبیاء سے پورا ہوتا ہے، اس لیے انسان رسولوں پر ایمان لا کر اور ان پر قدم بہ قدم چل کر ہی ہدایت و فلاح پا سکتا ہے۔ غرضیکہ تعلق باللہ کے لیے یہ واسطہ نہایت ضروری ہے اور ایسا واسطہ پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اتباع کی جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾ (النساء: ۶۴) ’’ہم نے رسول اسی لیے تو بھیجے ہیں کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔‘‘ ﴿اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ﴾ (النساء: ۵۹) ’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔‘‘ اللہ کی اطاعت اختیار کرنے کے لیے عملی نمونہ کی اطاعت کی جاتی ہے جن لوگوں نے اس واسطہ کو پکڑا بے شک وہی فائز المرام ہوئے اور قرب الٰہی کو پا سکے، اور جنہوں نے اس کا انکار کیا۔ وہ رب سے دور اور دونوں جہانوں میں ذلیل و رسوا ہو کر رہیں گے، مدعا یہ ہے کہ اس واسطہ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اس لیے اس کا اختیار کرنا فرض ہے یہ توسل تقرب الٰہی کا لازمی سبب ہے لیکن مقصود اس توسل کی پرستش و عبادت نہیں کیونکہ یہ تو شرک ہے بلکہ
Flag Counter