جائیں ۔ ادھر حسن بازاری بے حیائی و بے باکی کے کوچوں سے آشنا بنانے کے لیے رہنمائی کے لیے موجود ہو۔ پھر اس کے ساتھ ہیجان انگیز رقص جادو اثر موسیقی، شراب و کباب کے خود فراموشانہ دور کے ساتھ عملی راہنمائی بھی کی جاتی ہو، قدم قدم پر گناہوں کی ترغیبات جس قسم کی رنگین اور شباب آفرین بہاروں کو پیدا کرتی ہیں حسن و عشق کی بند کلیوں کو جس چابکدستی سے کھولتی ہیں ۔ تو کیوں نہ جرائم و ذمائم کا شوق بے اختیار سینے میں مچلنے لگے، اور جب شراب فسق و معصیت اس قدر ارزاں اور عام ہو جائے تو کون ہے جو قعر دریا میں پہنچ کر تر دامنی سے بچ سکے:
جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ پارسائی کا
شباب و مستی کے اس خدا فراموشانہ عالم میں جبکہ شیطان ننگا ناچنے لگتا ہے۔ تذکیر موت اور عالم آخرت کے ہولناک کوائف و احوال کا تصور بھی نہیں آ سکتا۔ زینت و جمال سے بھری دنیا جب اپنے تمام بھر پور ہنگاموں کے ساتھ بر سر عروج ہو، تو کسی عبرت یا سوز و گداز کا گذر وہاں کیونکر ہو سکتا ہے، رندی وہوسناکی کے ریکارڈ توڑ ہنگاموں میں اللہ و رسول کو یاد کرنے کون جاتا ہے، پھر ایسے ایمان سوز حالات میں کوئی پاکیزہ تر ہستی کیونکر یاد آ سکتی ہے یا پاکیزہ تصور پیدا ہی کیونکر ہو سکتا ہے، میلوں اور عرسوں میں تو نفس امارہ چٹخارے لینے کے لیے کھچا چلا جاتا ہے حاشا و کلا، کسی نیکی و بھلائی کا کوئی تصور بھی لے کر جاتا ہو، کیا برائی کے اڈوں میں جا کر اللہ یاد آتا ہے۔ یا رسول کی محبت میں اضافہ ہو سکتا ہے یا نیکی و بھلائی کی راہیں روشن ہوتی ہیں ، تقویٰ و طہارت کا کوئی سبق بدی کی آما جگاہوں میں یاد نہیں ہوتا، شیطان کی آغوش میں پہنچ کر ایمان کب یاد آتا ہے، گناہوں کا جام چڑھانے سے پاکبازی کے اسرار نہیں کھلتے، ماسکو جانے والی گاڑی میں سوار ہو کر کوئی کعبہ کیونکر پہنچ سکتا ہے۔ طوائفوں کی ہم آغوشی اور بتوں کے وصال، تقرب الٰہی کی منزلیں طے نہیں کراتے، ایمان سوز اور حیا پاش گانوں کو سن کر ایمان میں جان نہیں آتی۔ بد عملوں کی مجالس اور شرعی حدود کی پامالی میں قلب و روح کے تزکیہ و ترقی کا کوئی امکان نہیں ۔ بد عملوں کی مجالس اور شرعی حدود کی پامالی میں شرک و بدعت کی
|