Maktaba Wahhabi

353 - 366
(۲)… ﴿ہُوَ مَعَہُمْ اَیْنَ مَا کَانُوْا﴾ (المجادلہ: ۷) ’’کہیں بھی ہوں وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘ (۳)… ﴿وَّ لَاتَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ﴾ (یونس: ۶۱) ’’اے لوگو! تم کوئی بھی کام کرتے ہو ہم جبکہ تم اس کام میں مشغول ہوتے (ہمہ وقت) تمہیں دیکھتے رہتے ہیں ۔‘‘ (۴)… ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہُ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِo﴾ (ق: ۱۶) ’’ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا، اور ہم اس کے دل کے وسوسوں تک کو جانتے ہیں اور ہم اس کی شاہ رگ سے بھی اس کے زیادہ قریب ہیں ۔‘‘ ہماری قدرت علم اختیار اور ہماری با خبری اس کی رگ رگ سے چمٹی ہوئی ہے کسی بھی وقت اور زندگی کے کسی مرحلہ میں بھی ہمارے علم و قدرت سے باہر نہیں ہو جاتا۔ پیر فقیر تو بندوں کے اتنے قریب اور صاحب علم نہیں ہو سکتے اور نہ کسی کو ہمارے قریب کر سکتے ہیں ۔ پھر کسی کا طفیل اور وسیلہ پکڑنا اس ہستی کے آگے جو علیم و خبیر بھی ہے اور قریب بھی۔ کتنی جہالت اور گمراہی ہے وسیلہ کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جو حاکم کو صحیح حالات سے با خبر کرتا ہے یا غلط فہمی کو دور کرتا اور مائل بہ شفقت و رحم کرتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق سے بڑھ کر اپنے بندوں پر مہربان اور با خبر اور صاحب اختیار ہے۔ کمزور مخلوق کا سہارا اس کے سامنے پیش کرنا بھی بڑی گستاخی ہے۔ مختلف احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کے قریب و معیت کی تائید ہوتی ہے، ایک سفر میں لوگوں نے بہت اونچا ذکر اللہ شروع کیا۔ آپ نے انہیں منع فرمایا کہ چلاؤ مت، تم کسی بہرے اور غیر حاضر ذات کو یاد نہیں کر رہے ہو، بلکہ اسے یاد کر رہے ہو جو سننے والا اور تمہارے بہت قریب ہے، کسی میں فرمایا: ((یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اَنَا مَعَ عَبْدِیْ اِذَا ذَکَرَنِیْ۔))
Flag Counter