Maktaba Wahhabi

354 - 366
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ جب بھی مجھے یاد کرے میں اس کے ساتھ ہی ہوں ۔‘‘ کہیں یہ فرمایا: ((اَنَا عِنْدَظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ وَاَنَا مَعَہٗ اِذَا ذَکَرَنِیْ۔)) [1] ((وَاَنَا مَعَہٗ حَیْثُ یَذْکُرُنِیْ۔)) ’’جہاں بھی مجھے یاد کرے میں اس کے ساتھ ہوں ۔‘‘ قرب و معیت سے وہ مراد نہیں جو مادہ کو مادہ سے ہوتی ہے بلکہ یہاں قرب و معیت ایسی ہے جیسے کہ مجرد کی مادہ سے اور نور کو خاک سے ہوتی ہے وہ نور بے کیف اپنی تمام مخلوق کو محیط ہے، وہ اس کی کسی حالت سے کسی لمحہ بے خبر نہیں اس لیے کہ وہ دور نہیں ۔ ﴿وَاَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ اَوِاجْہَرُوْا بِہٖ اِِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾ (الملک: ۱۳) ’’آہستہ اور کھلی باتیں وہی جانتا ہے، سینے میں دبے ہوئے ارادوں اور ذہنی خیالات تک کو جانتا ہے۔‘‘ پہلی آیت: ﴿ادْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾ (المومن: ۶۰) تم مجھے جب بھی اور جہاں سے بھی پکارو میں جواب دیتا ہوں ۔ پر اگر یقین کامل ہو تو براہِ راست دعا مانگنے میں کوئی تردد نہیں ہوتا اور مایوسی و ناکامی کی پرچھائیں طبیعت پر غالب نہیں آتی۔ جو شخص کسی کے طفیل، بزرگوں کے صدقے یا بحق مصطفی دعا مانگتا ہے کہ فلاں بزرگ پیر یا پیغمبر کی محبت سے تو مجبور ہو کر میری دعا سنی جائے گی تو اسے اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ پر اعتماد و یقین حاصل نہیں کہ جب بندہ براہِ راست مجھے پکارے میں سنتا ہوں اور میں ہی دعائیں قبول کرنے کا کلی مختار بھی ہوں ، اس بے اعتمادی کی وجہ سے وہ پیروں بزرگوں اور ولیوں کے واسطے پیش کرتا ارواح کے وسائل ڈھونڈتا، اور بحق مصطفی کہہ کر
Flag Counter