ساتھ اکٹھے نہ ہوں سالوں مہینوں اور دنوں کے تعین کا کوئی اعلان و اہتمام نہ ہو، آپ کی دعا مقبول ہوئی اس لیے صحابہ کرام اور اسلام عظام نے آپ کے روضہ مبارک پر کوئی میلہ عرس یا اجتماع قائم نہیں کیا، اور نہ آپ کے روضہ مبارک پر کوئی سجادہ نشیں مقرر کیا گیا۔ خیر القرون میں جو لوگ گزرے ہیں ان میں صحابہ کرام بھی ہیں ، تبع تابعین بھی، ان کی قبروں پر کبھی کسی نے عرس نہیں منایا، کوئی میلہ نہیں لگایا، اور نہ اس کے لیے ان کی قبروں پر کوئی اجتماع منعقد ہوا، جہاں صاحب قبر کی قصیدہ خوانی اوار اس کے تقویٰ و زہد اور علم و فضیلت کی تعریف و ستائش کی جاتی۔
اگر یہ فعل کسی ثواب و برکت کا باعث ہوتا تو آپ اس سے بچاؤ کی دعا کیوں فرماتے چونکہ اس امر پر قرآن و سنت میں کوئی دلیل نہیں ، لہٰذا یہ بدعت ہی قرار دیا جائے گا۔
حضرت شاہ ولی اللہ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
((لا تجعلوا زیارۃ قبری عیداً، اقول ہذا اشارۃ الی سد مدخل التحریف کما فعل الیہود و النصاریٰ بقبور انبیاء ہم وجعلوہا عیدا و موسماً بمنزلۃ الحج۔)) [1]
’’میں کہتا ہوں کہ آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ میری قبر کی زیارت کو عید نہ بناؤ اس میں اشارہ ہے کہ تحریف کا دروازہ بند کر دیا جائے، کیونکہ یہود و نصاریٰ نے اپنے انبیاء کی قبروں کو حج کی طرح عید اور موسم بنا دیا تھا۔‘‘
عرس بھی سال کے بعد کیا جاتا ہے، پھر ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ بہت بڑی بدعتوں میں ایک بدعت یہ ہے کہ لوگوں نے قبروں کے بارے میں بہت کچھ اختراع کر لیا ہے، اور قبروں کو میلہ گاہ بنا لیا ہے۔ [2] شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بھی مقررہ روز زیارت کرنے اورعرس منانے کو بدعت کہا ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے اپنے فتاویٰ میں عرس کے دن زیارت کرنے کے لیے جانا حرام لکھا ہے۔
|