آج یہ جاہلیت کی چاروں علامتیں اکثر مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں ، حیرت ہے کہ اسلام جن امور کو امر جاہلیت شمار کرتا ہے۔ انہیں تقویٰ و زہد کے علمبرداروں نے اٹھا کر اپنی دستار فضیلت میں ٹانک لیا ہے۔ قومی عصبیتیں اور نسلی مفاخر جاہلیت کی یادرگار ہیں جنہیں فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سب میرے پاؤں تلے ہیں ۔ پھر انہیں زندہ کرنے والوں کو آپ کی امت کا فرد شمار کرتے ہوئے کچھ تو شرم محسوس ہونی چاہیے۔
محبوبیت کا معیار:
ارشاد الٰہی ہے:
﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ﴾ (آل عمران: ۳۱)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کبھی نبی یا بزرگ کا باپ یا بیٹا ہونا معیار محبت نہیں ہے۔ جو لوگ اللہ کی دوستی چاہتے ہیں وہ سب سے پہلے اللہ کے محبوب کی اتباع قبول کریں ۔ یہ نہیں کہا گیا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل سے ہوں گے وہی اللہ سے محبت کے مدعی ہو سکتے ہیں ۔ اللہ کی محبت کا معیار اتباع رسالت ہے، جس نے اتباع رسالت سے انکار کیا یا اس میں خلوص و صداقت کی روشنی پیدا نہ ہو سکی۔ وہ ہر گز اللہ کا محبوب نہیں بن سکتا۔ خواہ وہ کتنا ہی صحیح النسب السید ہو، اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے فرمایا:
﴿یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ﴾ (الاحزاب: ۳۲)
’’اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویو! تم عام عورتوں کے برابر نہیں ہو، اگر تم تقویٰ اختیار کرو۔‘‘
امہات المؤمنین محبوب الٰہ کے عقد زوجیت میں آ جانے کے باوجود اللہ کے ہاں شرف و عزت حاصل کرنے کے لیے تقویٰ کی محتاج ہیں ، یعنی تمہارا رتبہ و مرتبہ مشروط ہے۔ تقویٰ کے ساتھ جب شرط (خدا ترسی و نیک عملی) نہ ہوگی تو مشروط (عزت فضیلت اور بلند مرتبہ) بھی
|