Maktaba Wahhabi

304 - 366
’’نوح( علیہ السلام ) نے جب اللہ کو پکارا تو اس نے دعا قبول کی نوح( علیہ السلام ) اور اس کے ساتھ بہت بڑی مصیبت سے بچا لیے گئے، ایمان اور عمل صالح کی کرامت نے ان کی کشتی ساحل عافیت پر لگائی۔‘‘ جو شخص پیغمبر کی لائی ہوئی تعلیم و ہدایت قبول کر لے، پھر اسے عملی زندگی کے رگ و ریشہ میں ٹھیک ٹھیک چلا دے۔ قرآن کہتا ہے کہ وہ آل رسول میں داخل ہے، خواہ وہ کسی قوم اور کسی نسل سے تعلق رکھتا ہو، اور ان تمام اعزازات کا مستحق ہے جو آل رسول کے لیے مخصوص ہیں ۔ ابو جہل، ابو لہب کون تھے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا، لیکن یہ آپ کی آل سے خارج ہیں کہ کافر تھے۔ بلال حبشی، صہیب رومی، سلمان فارسی اور زید غلام، آپ کی آل میں داخل ہیں ۔ کیونکہ پیغمبر کی اتباع نے انہیں پستیوں سے اٹھا کر ہمدوش ثریا کر دیا۔ معمولی دھاتیں بھی اللہ کے محبوب کی محبت کے سانچہ میں ڈھل کر زر خالص بن گئیں ۔ اگر آج کل کے سادات غیر صالح تھے وہ نہ بچ سکی۔ آل میں وہ تمام لوگ جو آپ کی نسل سے تھے یا نہ تھے لیکن عمل صالح کے مالک تھے شامل کر کے بچا لیے گئے، جیسا کہ فرمایا: ﴿قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَo اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ اِنَّا لَمُنَجُّوْہُمْ اَجْمَعِیْنَo اِلَّا امْرَاَتَہٗ قَدَّرْنَآ اِنَّہَا لَمِنَ الْغٰبِرِیْنَo﴾ (الحجر: ۵۸۔ ۶۰) ان تمام مثالوں کے استقصا سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ محض کسی پیغمبر یا بزرگ کی نسل سے ہونا فلاح و نجات کا سہارا نہیں بلکہ اس کارگاہ عالم میں انسان عمل ہی کے لیے بھیجا گیا ہے اور جو شخص جس قسم کے اعمال فراہم کرے گا، انہی کے مطابق اس کے ساتھ سلوک کیا جائے گا۔ اس قسم کے ہر واقعہ میں عمل کی اہمیت واضح کی گئی ہے اور اعمال کے نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے تاکہ انسان غیر فطری سہاروں کے بھروسہ پر اپنے ایمان و عمل کو ضائع کر کے دائمی خسران نہ خرید لے۔ اسلامی شریعت اور پیغمبر کے احکام کی اتباع نہ کرنے والوں کو اسلامی سوسائٹی کا فرد تسلیم نہیں کیا گیا۔ مثلاً طالوت نے نہر کا پانی پینے والوں سے کہا کہ وہ ہماری پارٹی سے نہیں ہیں ،
Flag Counter