اور جنہوں نے نہ پیا انہیں اپنی امت کا فرد قرار دیا۔ ﴿فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَ مَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ فَاِنَّہٗ مِنِّیْٓ…﴾ ایک اور آیت میں پیغمبر اپنی امت کا فرد ہونے کے لیے اپنی اتباع کو لازمی قرار دیا:
﴿فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (ابراہیم: ۳۶)
’’جس نے میری اتباع کی تو وہ ہماری جماعت سے ہے اور جس نے نافرمانی کی تو بے شک تو ہی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اسی اتباع کے کامل انکار سے انسان ہمیشہ کے لیے ملت اسلامی سے کٹ جاتا ہے، ملت سے کٹنا اور جڑنا اتباع رسول پر منحصر ہے۔ جسے قرآنی اصطلاح میں عمل صالح کہا گیا، کیا یہ دلائل ان لوگوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی نہیں ہیں جو آل رسول بن کر عوام پر نسلی غرور جھاڑتے اور عام لوگوں سے خود کو بالا تر اور مقدس سمجھتے ہیں ۔ اسی بناء پر عوام سے نذر و نیاز اور صدقات خیرات سمیٹتے ہیں ، اور اسی غرور کے شیش محل میں داخل ہو کر کہا جاتا ہے کہ سادات کا بے ادب رسول اللہ کا گستاخ ہے، اس کی توبہ قبول نہیں واجب القتل ہے ایسے کئی مسائل ہیں جن کے چونہ مسالہ سے نسلی اور قومی غرور کا محل کھڑا کیا گیا ہے جن کے سقف و ایوان پر آبا و اجداد کی کرامتوں اور بزرگوں کے تذکار سے مینا کاری کی گئی ہے، یہ لوگ عبداللہ بن ابی کی اتباع میں قبائلی عصبیت کو بھڑکا کر مسلمانوں کی وحدت ملی کو پارہ پارہ کرتے ہیں ۔ بنائے امتیاز و فضیلت اور اساس شرف و کرامت رنگ و نسل نہیں بلکہ دینی فطرت کا علم و عمل ہے، قومیں صرف دو ہیں جس کا ذکر قرآن میں ملتا ہے مسلمان اور کافر انہیں سے دو گروہ بنتے ہیں حزب اللہ اور حزب الشیطان اور ان میں وجہ تفریق صرف کفرو اسلام ہے۔ اہل کفر الگ ملت ہیں اور اہل حق ایک جدا ملت، اختلاف کی بنیاد عقائد و عمل کا تضاد ہے۔ نہ کہ نسب و خاندان کا امتیاز۔
|