Maktaba Wahhabi

324 - 366
سے تو نیت ہی فاسد ہو جاتی ہے لہٰذا اس طرح قرآن کا پڑھنا کسی کے لیے بھی مفید نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے اجرت پر عبادت کرنے اور کرانے کی خرابیوں پر ابن قیم رحمہ اللہ ایک بہترین تقریر فرماتے ہیں : ((وایضًا فانہ یفضی الی اتکال بعض الاحیاء علی بعض ہذہ مفسدۃ کبیرۃٌ فان ارباب الاموال اذا فہموا ذالک واستشعروہ و استاجروا من یفعل ذالک فتصیر الطاعات معاوضات و ذالک یفضی الٰی اسقاطا لعبادات والنوافل ویصیرما یتقرب بہ الی اللّٰہ یتقرب بہ الی الآد میین فیخرج عن الاخلاص فلا یحصل الثواب لواحد منہما۔)) [1] ’’اس لیے کہ یہ چیز (یعنی اجرت پر ثواب حاصل کرنا یا عبادات کرانا) جا کر ختم ہوتی ہے۔ بعض انسانوں کے بعض پر بھروسہ کرنے پر اور یہ بہت بڑے فساد کا باعث ہے کیونکہ ارباب دولت یہ بات ذہن نشین کر لیں گے۔ تو وہ ایسا کام کرنے (اجرت پر عبادت سر انجام دینے اور ثواب بیچنے) والوں کو معاوضہ پر خرید لیں گے پس عبادات معاوضات بن جائیں گی، اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عبادات و نوافل ساقط ہو جائیں گے اور جو چیز تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے وہ بندوں کے تقرب کا وسیلہ بن جائیں گی۔ تو وہ عبادت اخلاص سے نکل جائے گی اور ان میں کسی کو بھی ثواب نہ ملے گا۔‘‘ جس فساد عظیم کی صرف حافظ صاحب نے توجہ دلائی تھی۔ آج وہی خرابی اپنی وسیع و عریضی صورت میں پھیل گیا ہے۔ جسے حافظ صاحب کی عملی تصدیق مطلوب ہو، تو وہ آج کل ختم خوانی کی مہم اور اس کے اجیر و مستاجر حضرات کی سرگرمیاں دیکھ لے سکتے ہیں کہ ملا کی دکان پر کس طرح ہر عبادت اور ذخیرہ ثواب بکنے لگا ہے، اور تھوڑی یا بہت اجرت کے بغیر کوئی
Flag Counter