’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ مسلم جب ایسی دعا مانگے جس میں کوئی گناہ کی بات نہ مانگی جائے، نہ ناطے توڑنے کی کوئی التجا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی دعا کے بدلے تین چیزوں میں سے ایک نہ ایک ضرور دیتا ہے۔ یا تو اس کی دعا فوری طور پر قبول ہو جاتی ہے اور بندہ کا سوال پورا ہو جاتا ہے۔ یا اس کی دعا ذخیرہ ثواب میں ترقی کا باعث بنا دے۔‘‘
(۲) (جبکہ بندے کی دعابعینہٖ پورا کرنے میں خود اسی کے لیے بہتر نہ ہو) یا اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت اس کی اجازت نہ دے) کیونکہ دعا عبادت ہے اور عبادت کا اجرو ثواب دینا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ (۳) یا اس پر کوئی نازل ہونے والی مصیبت ٹال دی جائے، یہ بھی قبولیت دعا کی ایک بہترین اور مفید تر صورت ہے۔
﴿اَمْ لِلْاِِنْسَانِ مَا تَمَنّٰی﴾ (النجم: ۲۴)
انسان کو ہر بات بعینہٖ اور حسب منشا پورا ہونے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کوئی ایسی مشین تو نہیں جو بندے کی مرضی پر چلے۔ اس کی حکمتوں پر نظر رکھنی چاہیے۔
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ اپنے علم و حکمت کی بناء پر بندہ کی دعا کو رد و قبول کے جس پیمانے میں چاہے ڈال دے۔ اگر بندہ کے طریق درخواست اور آداب دعا میں کوئی کوتاہی ہو گئی تو طہارت و نظافت میں کوئی نقص رہ گیا، خلوص اور جذب وطلب کی روح سے دعا محروم رہی تو ایسی بہت سی صورتیں ممکن ہیں جن کی وجہ سے رد دعا کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ تاہم قبولیت میں تاخیر ہو یا استر داد کی کوئی صورت یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ تک بندے کی آواز پہنچی نہیں یا وہ مصروفیت کار میں توجہ نہیں کر سکا، اور اس سے پہلے فریادیوں کی درخواستوں پر غور کی وجہ سے اسے فرصت نہیں ملی، ایسا تصور بھی ایمان کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کو براہِ راست خطاب کرنے اور سب کچھ اسی سے مانگنے کی تلقین کا منشا یہ ہے کہ دنیوی بادشاہوں کے قانون و آداب کے مطابق ہمارے ہاں کوئی واسطے مقرر نہیں ہیں ۔ قبولیت دعا کے لیے نہ یہاں بعد ہے، وسائط و اسباب کے محتاج تم ہو اللہ تعالیٰ ان سے
|