بے نیاز اور جملہ اسباب اس کے ماتحت ہیں ۔
حدیث میں اسی آزادی سوال کی ترغیب و تعلیم دی گئی ہے:
((وَاِذَا سَئَلْتَ فَاسْئَلِ اللّٰہَ، وَاِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ۔))
مافوق العادت سوال مافوق الامر استعانت، صرف اللہ ہی سے مخصوص ہے، یہاں کسی وسیلہ واسطہ کی شرط نہیں لگائی گئی، قرآن میں یہی حکم ملتا ہے:
﴿وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ﴾ (النساء: ۲۳)
’’اللہ تعالیٰ ہی سے اس کا فضل طلب کرو۔‘‘
﴿فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ﴾ (العنکبوت: ۱۷)
’’فضل و رزق اور زندگی کی ہر ضرورت اللہ ہی سے طلب کرو۔‘‘
اسباب ساز گار کرنا اسی کا کام ہے طبعی امور بھی اسی کی مرضی سے خواص ظاہر کرتے ہیں ۔ آگ کا خاصہ ہمیشہ جلا نا رہا ہے لیکن ابراہیم علیہ السلام پر اللہ کے حکم سے خاموش ہو کر ٹھنڈی ہو گئی۔ دریاؤں کی روانی ان کی فطرت ہے کبھی ٹھہرتے نہیں ، موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں دریائے نیل اللہ کے حکم سے ٹھہر گیا، ہوا انسانوں کے کہے پر کب چلی ہے، لیکن جب مالک کا حکم ملا تو سلیمان کا تخت اٹھائے پھرتی اور براہِ راست ان کی بات مانتی نظر آتی ہے۔ مردوں کو زندہ کرنے کی طاقت کسی میں نہیں لیکن خالق موت و حیات کے حکم سے عیسیٰ علیہ السلام کی معرفت مردے زندے ہوتے رہے۔ قیمہ بن جانے کے بعد کب کوئی پرندہ اڑا ہے؟ لیکن مالک کائنات کے اشارہ پر ابراہیم علیہ السلام کے بلانے پر پھر سے اڑتے چلے آ رہے ہیں ۔ آسمانوں تک پہنچنے اور آسمانوں سے بھی اوپر مادی جسم کے ساتھ پرواز کرنے کی طاقت کس میں ہے، راہ کی خطرناکیاں مادی جسم کو تحلیل کر دیتی ہیں ۔ لیکن سرور دو عالم سدرۃ المنتہیٰ سے بھی اوپر پہنچے جہاں انسان کا طائر خیال بھی کبھی نہ پہنچ سکے، تولید و تناسل کا آئین کیسا محکم ہے، لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بغیر باپ کے ہوتی ہو۔
|