دے۔ عالم اسباب کے تمام ظاہری اسباب ایک ایک کر کے ٹوٹ گئے، ناؤ منجدھار میں ، اور زندگی اضطراب میں پھنس چکی ہے، مصائب و آلام کا لا متناہی سلسلہ ہمتوں کے کوہ ہمالہ کو توڑ پھوڑ چکا۔ رنج و درد کی سوزناکیوں نے ہڈیوں کا گودا بھی چوس لیا۔ فکر و اندوہ سر کا بھیجا کھا چکے۔ کوئی چارہ کار، کوئی مددگار، کوئی دستگیر، کوئی غوث، کوئی مشکل کشا… کہاں ہے… ایک نوید روح افزا کانوں سے ٹکرا رہی ہے، غور سے سنو تو وہ نغمہ روح پر ور خود خالق کائنات کی صدا ہے۔ ’’فَانِّیْ قَریبٌ‘‘ ﴿اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ﴾
شکستگی اسباب کے تمام ہولناک مواقع اور مشکلات و حوادث کی عقدہ کشائی کے لیے بھی اسی سرچشمہ امید سے ندا اٹھ رہی ہے جو تمام مایوسیوں اور کمزوریوں کا آخری حل ہے، اور تمام بے سروسامان و پراگندہ انسانوں کی آخری امید گاہ ﴿اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ﴾ (الزمر: ۳۶) انسانی مشکلات کے ہر ہجوم میں ناکامیوں کے ہر موڑ پر دنیا کے تمام سہاروں کے ٹوٹ جانے کے بعد وہی دستگیر اور وہی غوث اعظم ہر وقت موجود اور ہر دم متوجہ، لیکن بندہ نادان اس آواز کو سن نہیں پاتا۔ ان دیکھے الٰہ کی دستگیریوں اور حوصلہ افزائیوں پر اسے اعتماد نہیں ۔ اس لیے نظر آنے والے بے اثر سہاروں کی طرف دیوانہ وار لپکتا ہے اور مردوں کی قبروں پر سرپٹکتا ہے۔ جنہیں نہ کسی کی پکار کی خبر نہ کسی کے حال کا علم، نہ اختیار و تصرف کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں ، نہ اللہ کے ہاں کوئی زور، کیسے بے جان سہارے ہیں یہ آہ اس قوم کی بدبختی! تو گویا بادہ گساریوں اور سیاہ مستیوں کے ساتھ ساتھ توحید فروشیوں اور قبر پرستیوں کا تماشہ بھی صرف ان میلوں میں ہی نظر آ سکتا ہے۔ عیاشی و فحاشی، اور رقص و سرور کے مشاغل انسان کو بزدل بناتے ہیں ۔ یہ رسم اسی لیے جاری کی گئی اوراس پر ایسے ہی لوازمات اس لیے مہیا کیے گئے تاکہ قوم میں مردانہ اور خدا پرستانہ اوصاف و خصائل پیدا نہ ہو سکیں ۔ اسلامی فہم و شعور بیدار ہی نہ ہو سکے، عروس ترقی و کمال کے گلے میں بانہیں ڈالنے والے نوجوان طوائفوں کے گلے میں بانہیں ڈال کر چلنا سیکھ جائیں ، اور اس طرح زندگی کے صاف ستھرے اور اجلے لباس کو ان کی ہم آغوشی سے داغ دار بنانے کو ہی فخر و کمال کی معراج تصور کر لیں ۔ کسی قوم کی
|