ذہنی، فکری علمی سیاسی اور اخلاقی پستی کے دور میں اسی قسم کے رنگین اعمال و کردار کی صورت گری و موسیقی وجود میں آتی ہے جس قوم نے ہتھیار پھینک کر ہاتھوں میں ساز پکڑ لیے، معروف کی تبلیغ و اشاعت کے بجائے راگ الاپنے شروع کر دیے، اسلاف کی اسلامی اور قیمتی خدمات کے تذکروں سے منہ موٹ کر جو دل و دماغ کو منور فکر و رائے کو پاکیزہ اور سیرت و اخلاق کو شگفتہ بنانے کا سبب ہیں ۔ کجن بائی اور فلاں فلاں نے فحش گیتوں سے دل بہلانا شروع کر دیا۔
تو ایسی قوم پر زوال و انحطاط کی گھنگھور گھٹاؤں نے آزادی و اقبال کا آفتاب کبھی چمکنے نہیں دیا۔ فتح و نصرت عروج و ترقی اور حقیقی فخر و کمال صرف انہیں کے دامن سے وابستہ رہے ہیں ۔ جو دعوت و تبلیغ اور شمشیر و سناں سے بہ یک وقت یکساں محبت رکھتے ہیں ۔ اصلاح و انقلاب کے علمبرداروں کی زندگی، لہو ولعب کے تمام سازوں اور زنانہ اداؤں سے ہمیشہ نا آشنا رہی ہے۔ خلیفہ معتصم باللہ کی رباب پسندی اور طاؤس پرستی مشہور ہے۔ لیکن معلوم ہے جام عیش نے نہ صرف اسے بے دردی سے ہلاک کیا بلکہ اس کی مظلوم رعایا کے خون سے دجلہ کی موجیں کئی دنوں تک رنگین ہو کر بہتی رہیں اور اس کا قیمتی علمی ذخیرہ رنگین مزاج قوم کی حالت زار پر اشکبار دریا کے سینے پر تیرتا رہا۔ محمد شاہ رنگیلے کا خون جب بھی کسی قوم کی رگوں میں رواں ہوا۔ پھر اس کی اجتماعی شوکت اور قومی اقتدار کو کوئی طاقت بھی کھوکھلا ہونے سے بچا نہ سکی۔ شاہد و شراب اور رقص و غنا کے اجزائے ترکیبی سے ڈھلی ہوئی ثقافت جب بھی بر سر عروج ہوئی اس قوم کی ناؤ ڈوب کر رہی، جس قوم کی باوقار زندگی دغا دینے لگے تو یہی ثقافت سے اس عہد وفاداری استوار کر لیتی ہے۔ آج ہمارے ملک کی تمام سرحدوں پر دشمن دستک دے رہا ہے اور انقلاب للکار رہا ہے لیکن قوم عیش کوشی اور تن آسانی کی چھاؤں میں ثقافت کے ہاتھوں تھپک تھپک کر سلائی جا رہی ہے، عرسوں اور میلوں کا مقصد عرسوں اور میلوں کا رواج دراصل جعلی پیروں نے اپنے باپ دادا اور بزرگوں کی ہڈیوں کو بیچ کر اور ان کے زہد و تقدس کو فروخت کر کے دنیا کمانے کے لیے جاری کیا تھا۔ اس کے پیچھے کسی خیر و برکت اور
|