Maktaba Wahhabi

680 - 868
مرتکب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے۔[1] البتہ انہیں کاٹنا یا مونڈنا تو اسے بعض اہل علم نے مکروہ کہا ہے اور بعض نے اس سے بھی منع فرمایا ہے اور اسے نمص (یعنی نوچنے) ہی میں شمار کرتے ہیں۔ان کے بقول "نمص" صرف نوچنے ہی سے خاص نہیں ہے بلکہ چہرے کے بالوں کی ہر وہ تغییر جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ہے،اس کو شامل ہے۔ اور جو ہم سمجھتے ہیں وہ یہی ہے کہ عورت کو اس کام سے بچنا چاہیے۔ سوائے اس صورت کے کہ بال بہت زیادہ ہوں جو آنکھ پر آ کر نظر کو متاثر کرتے ہوں تو اس اذیت کو دور کرنے کی غرض سے انہیں کاٹ لے تو جائز ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:ایک عورت کا سوال ہے کیا ہمیں سیاہ رنگ کے علاوہ دوسرے رنگوں سے بال رنگ لینا جائز ہے؟ جواب:ہاں جائز ہے،بشرطیکہ سیاہ رنگ سے بچے۔اور میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ عورت کی زینت وہ ہے جس میں رنگ نمایاں اور خوشبو مخفی ہو۔(محمد بن عبدالمقصود) سوال:ایک دوشیزہ کے ابروؤں کے بال بہت زیادہ گنجان اور ڈھلکے ہوئے ہیں تو اس نے ایک دوسری عورت سے پوچھا تو اس نے کہا کہ زائد بالوں کو اگر دور کر دو تو کوئی حرج نہیں؟ جواب:ہاں ان کا زائل کرنا جائز نہیں ہے،سوائے اس صورت کے کہ اتنے لمبے ہوں کہ آنکھوں پر پڑتے اور نظر کے لیے اذیت کا باعث ہوں۔جیسے کہ حدیث میں ہے:(لا ضرر ولا ضرار) "یعنی اسلام میں دکھ اور نقصان پہنچانا نہیں ہے اور نہ ہی نقصان کے بدلے میں نقصان پہنچانا۔" [2] (محمد بن عبدالمقصود) سوال:دانتوں کو اس طرح ترشوانا کہ ان کے درمیان کچھ خلا ہو جائے،اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:یہ کام حرام ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (۔۔وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ لِخَلْقِ اللّٰهِ ) "لعنت ہے ایسی عورتوں پر جو اپنے دانتوں کو کریدتی یا ان میں خلا پیدا کرواتی ہیں،اللہ کی خلقت اور پیدائش میں حسن و زیبائش کے لیے تغییر کرتی ہیں۔"[3]
Flag Counter