Maktaba Wahhabi

438 - 868
ہاں اگر اندیشہ ہو کہ اس کے بھائی یا اس کے ولی نے اس پر جبر کرنا چاہا ہو،تو اس صورت میں اس کی رضا مندی کی شہادت لینی پڑے گی۔(عبدالرحمٰن السعدی) سوال:اگر لڑکی یوں کہے کہ اگر میرا یہ ولی راضی ہے تو میں بھی راضی ہوں،تو کیا یہ صحیح ہے؟ جواب:ہاں،اگر لڑکی یہ بات کہنے کے بعد بھی راضی رہے اور اپنی اس بات (رضا مندی) سے پھرے نہیں تو ٹھیک ہے۔کیونکہ اصل اعتبار اس کی اپنی رضامندی کا ہے،بالخصوص ولی جب باپ کے علاوہ کوئی اور ہو۔(عبدالرحمٰن السعدی) سوال:کیا لڑکی کو اس کے ناپسندیدہ رشتے پر مجبور کیا جا سکتا ہے؟ جواب:نہیں،لڑکی کو اس کا باپ یا ماں بھی اس کے ناپسندیدہ رشتے پر مجبور نہیں کر سکتے ہیں،خواہ انہیں اس کا دین پسند ہی ہو۔(عبدالرحمٰن السعدی) ولی سوال:ایک بیوہ کو ایک ایسے آدمی نے پیغام نکاح دیا ہے جو تمباکو نوشی کرتا ہے،یہ عورت اگرچہ سمجھدار ہے،اس پر راضی ہے،مگر اس کے ولی راضی نہیں ہیں،تو کیا اس کی اس کے ساتھ شادی کر دی جائے؟ جواب:اس کے اولیاء کو چاہیے کہ وہ اسے اس نکاح سے باز رکھیں،کیونکہ یہ ان کے لیے ایک عار ہے،اور اللہ کی معصیت بھی۔ممکن ہے انہیں بعد میں اس پر عار دی جائے۔(محمد بن ابراہیم) سوال:ہمیں آپ کا مکتوب ملا ہے کہ آسٹریلیا کی ایک لڑکی نے بغیر ولی کے اپنا نکاح کیا ہے،اس کے حق مہر کا تعین بھی نہیں ہوا ہے،اور اس نکاح کے گواہوں میں ایک مسلمان مرد اور ایک عیسائی عورت ہے،جو اس کی ماں ہے،علاوہ اس کی مجلس نکاح میں چند دوسری عیسائی عورتیں اور اس لڑکی کی ساتھی موجود تھیں،اور ایک اس نکاح کی رجسٹرار عیسائی عورت تھی۔چار سال بعد یہ عورت مسلمان ہو گئی ہے اور اس کے اس شوہر سے دو بچے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آیا یہ نکاح صحیح ہے؟ اگر یہ صحیح نہیں تو اس کو کس طرح صحیح کیا جا سکتا ہے؟ اور یہ نماز کیسے پڑھے جبکہ اسے سوائے انگریزی زبان کے اور کچھ نہیں آتا؟ جواب:جس انداز سے یہ نکاح ہواہے یہ صحیح نہیں ہے،کیونکہ اس میں لڑکی کا کوئی ولی نہیں تھا اور دو گواہ بھی نہیں ہیں۔نبی علیہ السلام کا فرمان ہے:"ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہے۔"[1] اور اس طرح عقد میں حق مہر کا بھی ذکر نہیں ہوا ہے،یہ بھی درست نہیں ہے۔اور اس نکاح کی تصحیح اس طرح ہے کہ اس عورت کا ولی
Flag Counter