Maktaba Wahhabi

97 - 868
امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "تطیر سے مراد کسی چیز کو دیکھ کر یا اس کی آواز سن کر اس سے بدفال لینا ہے۔اگر کوئی انسان اس سے متاثر ہو کر اپنے کام سے باز آ گیا۔مثلا سفر سے واپس آ جاتا ہے یا جو کام کرنا چاہ رہا تھا چھوڑ دیا تو اس نے شرک کا دروازہ کھٹکھٹایا بلکہ اس میں داخل ہو گیا اور اللہ پر توکل سے بری ہو گیا،اپنے لیے اس نے غیراللہ سے خوف اور غیراللہ کے ساتھ تعلق کا دروازہ کھول لیا۔ایسی بدفالی نے اس کو " إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴿٥﴾" اور " فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ " اور " عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ﴿٨٨﴾" کے مقام سے گرا دیا۔اس کا دل غیراللہ کی عبادت اور غیراللہ پر توکل سے متعلق ہو گیا۔اس کا دل،ایمان اور حال سب خراب ہوا۔بدشگونی کے تیروں کا نشانہ بن گیا جو اب ہر طرف سے اس کی طرف بوچھاڑ کرتے رہیں گے۔ایک شیطان اس کے لیے مقرر ہو گیا جو اس کی دنیا و دین کو اس کے لیے خراب کرتا رہے گا۔کتنے ہی لوگ ہیں جو اس طرح سے دنیا و آخرت کے خسارے میں پڑے ہیں۔الغرض بدفالی و بدشگونی کے حرام ہونے کے دلائل معروف اور اپنے اپنے مقامات پر موجود ہیں۔یہاں ہم مذکورۂ بالا کلمات ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔" (ماخوذ از فتویٰ الاذقیہ،طبع 1375ھ) (محمد بن ابراہیم آل الشیخ) عہد اسلام کو توڑنے اور اسے باطل کرنے والے امور اور یہ دس ہیں اے مسلمانو!تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام بندوں پر فرض کیا ہے کہ اسلام قبول کریں،اور اسے مضبوطی سے تھامے رہیں اور ہر اس بات سے دور رہیں جو اس کے خلاف ہو۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی غرض سے مبعوث فرمایا ہے کہ بندوں کو اس کے دین کی دعوت دیں۔اللہ نے بتایا ہے کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کی وہ ہی ہدایت یافتہ ہے اور جس نے آپ سے منہ پھیرا وہ گمراہ ہے۔علمائے امت نے (باب المرتد میں) بہت سے ایسے امور گنوائے ہیں جن سے آدمی کا اسلام و ایمان باطل ہو جاتا ہے،آدمی دین سے خارج ہو جاتا ہے اور اس کا خون اور مال حلال ہو جاتا ہے۔ان میں سے دس امور بہت ہی اہم ہیں جنہیں امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اور دیگر علماء نے ذکر کیا ہے۔درج ذیل سطور میں اختصار سے ان کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ آپ اور دوسرے لوگ ان سے محتاط رہیں۔ان کے آخر میں کچھ توضیحات بھی پیش کی گئی ہیں۔ 1۔ ان باطل امور میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت میں شرک کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: إِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ (النساء 4؍116) "بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے،البتہ اس کے علاوہ جسے چاہے گا بخش دے گا۔"
Flag Counter